8 کروڑ روپے کا حساب کون دے گا؟

ہر انسان میں کچھ خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں، یقیناً مجھ میں اور آپ میں بھی ہوں گی، نجم سیٹھی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے، ہم ملک میں کرکٹ کی واپسی اورپی ایس ایل کے انعقاد میں ان کی کوششوں کو فراموش نہیں کر سکتے، انھوں نے اس کیلیے انتھک محنت کی، وہ انتہائی ذہین انسان ہیں۔

میرے جیسا انسان جہاں سوچنا ختم کرے وہ وہاں سے شروع کرتے ہیں، چاہے فرنچائز اونرز ہوں،اسپانسرز یا کوئی اور وہ سب سے کام نکالنے میں ماہر تھے چاہے اس کے لیے پکا دوست بھی بننا پڑتا وہ کر گزرتے، البتہ ان کے ساتھ بعض بڑے مسائل بھی تھے، سب سے بڑا مسئلہ تنقید برداشت نہ کرنا تھا، پی سی بی کے دور میں ان کی کوشش تھی کہ چاہے وہ ساتھی آفیشلز ہوں یا میڈیاکبھی کہیں سے ان کیخلاف کوئی آواز نہ اٹھے۔

انھوں نے ’’ون مین شو‘‘ لانے کی کوشش میں بادشاہت کی طرح نظام چلایا، جس طرح بادشاہوں کے درباری انھیں ہر بات پر ’’واہ واہ‘‘ کہہ کر آسمان پر پہنچا دیتے تھے، ایسا ہی سیٹھی صاحب کے ساتھ ہوا، ان کے بعض ساتھی ہر بات پر ’’زبردست سر کیا آئیڈیا ہے آپ کا واہ‘‘ ایسی باتیں کر کے انھیں خوب چڑھاتے مگر بعد میں نقصان اٹھانا پڑتا، وہ کانوں کے بھی بہت کچے اور ٹویٹر پر کسی ٹین ایجر کی طرح ایکٹیو ہیں،ان کے نیٹ ورک کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بورڈ میں پتا بھی ہلے تو اب بھی انھیں رپورٹ مل جاتی ہے۔

ان کی ٹویٹر آرمی ہر مسئلے پر دفاع کیلیے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی تھی، مگر ہر عروج کو زوال ہے، ماضی کے بادشاہوں کا آج کوئی نام لینے والا باقی نہیں رہا، نجم سیٹھی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، انھوں نے اپنی چیئرمین شپ کے دور میں کئی غلطیاں کیں، ان میں سب سے اہم’’بگ تھری‘‘ کی حمایت تھی، اگر اس وقت ہم نیوٹرل رہتے اور بھارت کو ووٹ نہ دیتے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، بگ تھری تو ویسے ہی بن جانا تھا، مگر یہاں سیٹھی صاحب سے چوک ہو گئی۔

انھوں نے خیالی پلاؤ سے پیٹ بھر لیا، بھارت نے ایک سادہ سا لیٹر دیا وہ اسے ڈالرز کا بلینک چیک سمجھ بیٹھے، مجھے ابھی تک میٹنگ سے واپسی پر ان کی پریس کانفرنس یاد ہے جس میں انھوں نے بوری بھر کر ڈالرز لانے جیسے دعوے کیے تھے، مگر پھر بگ تھری کے غبارے سے ہوا نکل گئی، بھارت کو وعدے یاد نہ رہے،ایک بھی باہمی سیریز نہ ہو سکی، اس نے معاہدے کو کاغذ کا پرزہ قرار دے دیا۔

میڈیا نے نجم سیٹھی کو تنقید کا نشانہ بنایا وہ اسے برداشت نہ کر سکے، پھر انھوں نے جھینپ مٹانے کیلیے بھارت کیخلاف مقدمے کا فیصلہ کر لیا،آئی سی سی کی تنازعات حل کرنے والے کمیٹی میں63 ملین ڈالر ہرجانے کا کیس کیا گیا،میری اس وقت احسان مانی سے بات ہوئی تو انھوں نے واضح الفاظ میں کہا تھاکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، شہریارخان نے بھی ایسی ہی بات کی تھی۔

میں نے اس حوالے سے ٹویٹ کر دی تو نجم سیٹھی آگ بگولہ ہو گئے اور ان کے بیان کو جعلی قرار دے دیا پھر جب ویڈیو سامنے آئی تو چپ سادھ لی، میں نے اپنے کئی کالمز میں بھی اس حوالے سے تحریر کیا کہ نقصان کی رقم میں مزید اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا، وہ مجھ سے مزید ناراض ہو گئے، کیس کے لیے برطانیہ اور پاکستان کے معروف وکلا کی خدمات حاصل کی گئیں۔

ایک ملین پاؤنڈ کا بجٹ رکھا گیا، پیسہ پانی کی طرح بہا، ایک غلطی سدھارنے کیلیے مزید غلطیاں کی گئیں، نجم سیٹھی نے اپنی انا کو تسکین پہنچانے کیلیے بورڈ کی اچھی خاصی رقم ضائع کردی، سب سے بڑی بات ہمارے خلاف یہ جاتی تھی کہ بھارتی حکومت ٹیم کو کھیلنے کی اجازت نہیں دے رہی، وہ کیسے کھیل سکتی تھی، پھر وہ معاہدہ بی سی سی آئی کے لیٹر ہیڈ پر تحریر تھا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، جہاں پاکستان کو ایک روپے کا بھی فائدہ ہو رہا ہو بھارت مخالفت کرتا ہے۔

آپ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ وہ پی سی بی کو زرتلافی ادا کرتا، شہریار خان کو بلانے پربی سی سی آئی کے دفتر کا گھیراؤ ہو گیا تھا، پیسے دینے پر تو انتہا پسند آگ ہی لگا دیتے، کیا بھارت ایسا کرتا، کبھی نہیں، اسی طرح آئی سی سی کی آمدنی کا بہت بڑا حصہ بھارت سے آتا ہے وہ کیسے اسے ناراض کر دیتی، ایک دس سال کے بچے سے بھی پوچھتے تو وہ یہی کہتا کہ پاکستان کے کیس جیتنے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں مگر حیران کن طور پر نجم سیٹھی یہ بات نہ سمجھ پائے،انھوں نے خود پر سے داغ ہٹانے کیلیے مزید نقصان کرا دیا، اب کیس کا فیصلہ آیا تو نت نئی تاویلیں پیش کر رہے ہیں، وکلا سے ملاقاتوں کے نام پر انھوں نے انگلینڈ کے کئی دورے بھی کیے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کیس میں بورڈ نے8کروڑ روپے سے زائد رقم پھونک دی اس کا حساب کون دے گا؟ کس نے جانتے بوجھتے ہوئے کیس کرنے کا غلط فیصلہ کیا یہ سب جانتے ہیں، نجم سیٹھی کو بھی چاہیے کہ مزید بیان بازی نہ کریں سامنے آئیں اور غلطی کا اعتراف کریں، چند روز قبل میری اسلام آباد میں چیئرمین پی سی بی احسان مانی سے ملاقات ہوئی، انھوں نے گوکہ واضح الفاظ میں تو نہیں کہا البتہ اشارہ ضرور دیا کہ پاکستان کے پاس موجود ثبوت پختہ نہیں تھے، سابق چیئرمین کی غلطی پر ظاہر ہے وضاحتیں اب انہی کو دینا پڑیں گی۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ کرکٹ اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات خوشگوار نہ ہوں،اس لیے انتظار کریں،مقدمے بازی، آئی سی سی کو درمیان میں لانے یا بیانات دینے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا،صرف یہ یاد رکھیں کہ بھارت سے باہمی سیریز نہ کھیلنے کے باوجود ہم کسی سے پیچھے نہیں، ہمارے پلیئرز آئی پی ایل نہیں کھیلتے مگر ٹی ٹوئنٹی میں ٹیم نمبر ون ہے۔

بھارت کو فائنل میں ہرا کر چیمپئنز ٹرافی بھی حاصل کی، پی ایس ایل کامیاب برانڈ بن چکی، آفیشلزکی فوج اور بھاری تنخواہوں سے ظاہر ہے کہ بورڈ کا خزانہ بھی بھرا ہوا ہے، لہذا سیریز کیلیے بھارت کی منت سماجت کاکوئی فائدہ نہیں، اپنی کرکٹ پر توجہ دیں، ہمیں بھارت کی کوئی ضرورت نہیں،پاکستان کرکٹ انشااﷲ ایسے ہی ترقی کرتی رہے گی۔