ٹیسٹ فارمیٹ میں پاکستان ٹیم کی مشکلات

جنوبی افریقی کنڈیشنز میں ایشیائی ٹیمیں ہمیشہ جدوجہد کرتی ہیں،خاص طور پر تیز اور باؤنسی پچز پر بیٹسمین زیادہ ہی مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں، پاکستان، بھارت،سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ہوم کنڈیشنز میں مہلک ہتھیار سپنرز بھی یہاں زیادہ کامیاب نہیں ہوتے،پاکستانی ٹیموں کی ماضی میں بھی جنوبی افریقہ میں کارکردگی اچھی نہیں رہی، گرین کیپس نے یہاں صرف 2ٹیسٹ میچز جیتے،دونوں کامیابیاں شعیب اختر کی مرہون منت تھیں،سپیڈ سٹار نے سازگار کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میزبان بیٹنگ لائن تہس نہس کرکے فتوحات کا راستہ بنایا،سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے یواے ای کے سازگار حالات میں کینگروز کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں کئی غلطیاں کرنے کے باوجود سیریز 1-0سے اپنے نام کی،بال ٹمپرنگ کیس میں سٹیون سمتھ اور ڈیوڈ وارنر کی معطلی کے بعد تشکیل نو کے مراحل سے گزرتی آسٹریلوی ٹیم کو تسخیر کرنے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ کو بھی زیر کرلے گی لیکن کیویز توقع سے زیادہ سخت جان نکلے،ماضی میں یواے ای میں رنز کے انبار لگانے والے گرین کیپس نے اہم مواقع پر وکٹیں گنوائیں اور مہمانوں کو حاوی ہونے کا موقع ملتا رہا۔

اعتماد سے عاری بیٹنگ لائن کیساتھ جنوبی افریقہ میں قدم رکھنے والی پاکستان بیٹنگ نے ایک بار سینئرز سے توقعات وابستہ کرلیں، پروٹیز کے دیس میں کھیلنے کا تجربہ رکھنے والے اظہر علی اور اسد شفیق امیدوں کا مرکز تھے،ٹاپ آرڈر میں فخرزمان کو کھلانے کا مقصد جارح مزاج جنوبی افریقی بولنگ لائن پر جوابی حملے کرنا تھا لیکن پاکستان کا کوئی نسخہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوا، حارث سہیل کی انجری کے بعد مہمان ٹیم نے ٹاپ آرڈر کو استحکام دینے کے لیے فخرزمان اور امام الحق کیساتھ تیسرے اوپنر شان مسعود کو بھی میدان میں اتارا لیکن بیٹنگ کی ناکامیوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔

کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے اور بھرپور تیاری کے دعوے کرنے والے ہیڈکوچ مکی آرتھر اور کپتان سرفراز احمد بھی مایوسی میں ڈوبتے گئے،سنچورین ٹیسٹ کی پہلی اننگز بیٹنگ کی ناکامی کے بعد بولرز نے پروٹیز کو کم ٹوٹل تک محدود کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو کم بیک کا اچھا موقع فراہم کردیا تھا، بیٹسمینوں کو اچھا آغاز بھی مل گیا تھا لیکن بعد ازاں وکٹوں کی ایسی جھڑی لگی کہ میزبان ٹیم کو صرف 149کا ہدف دیا جاسکا، ہاشم آملہ کا کیچ ڈراپ کئے جانے اور ڈین ایلجر کا کیچ تھرڈ امپائر کی جانب سے مسترد کئے جانے کی وجہ سے ایک آسان فتح جنوبی افریقہ کا مقدر بن گئی۔

سنچورین ٹیسٹ کے دوران ڈریسنگ روم کا ماحول خراب ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں، ہیڈ کوچ کی تلخ کلامی کوسابق کپتان وقار یونس نے استاد کی ڈانٹ ڈپٹ قرار دیتے ہوئے بولرز کی کارکردگی کو سراہا تھا، انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی تھی کہ اھر حوصلہ جوان رکھے تو پاکستان ٹیم اگلے میچ میں کم بیک کرسکتی ہے،کیپ ٹاؤن میں فاف ڈوپلیسی نے ٹاس جیت کر مہمانوں کو بیٹنگ کی دعوت دی تو کپتان سرفراز احمد نے بڑی خوشدلی سے کہا کہ اگر سکہ ان کے حق میں پلٹتا تو وہ خود بھی پہلے کھیلنے کو ترجیح دیتے لیکن بعد ازاں نیولینڈز میں بھی بیٹسمین پرانی روش پر برقرار نظر آئے،ٹاپ اور مڈل آرڈر دونوں ناکام ہوئیں۔

شان مسعود اور کپتان سرفراز احمد نے مزاحمت کرتے ہوئے مکمل تباہی کا راستہ ضرور روکا لیکن کریز پر سیٹ اور موقع ہونے کے باوجود ٹیم کو مستحکم پوزیشن پر نہ پہنچا سکے،کسی بھی بیٹنگ لائن میں صرف 4بیٹسمین ڈبل فیگر میں داخل ہوسکیں، سب سے بڑی شراکت 60کی ہوتو بڑے سکور کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا،پاکستان کی پہلی اننگز 177تک محدود رہنے کے بعد امید تھی کہ بولرز ٹیم کو کم بیک کا ایک موقع اور دیں گے لیکن سنچورین میں سرفراز احمد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پیئر مکمل کرنے والے فاف ڈوپلیسی نے اس بار قیادت کا حق ادا کردیا۔

مارک رام کی جانب سے اچھا آغاز فراہم کئے جانے کے بعد میزبان کپتان نے سنچری اور باووما کیساتھ 156رنز کی شراکت سے اپنی ٹیم کو خطرے سے باہر کیا، کوئنٹن ڈی کوک کی ففٹی نے ٹوٹل 431تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان کی میچ اور سیریز بچانے کے لیے مہم انتہائی کمزور پڑنے میں اس بار بیٹسمینوں کیساتھ بولرز بھی قصوروار بنے، پلیئنگ الیون کا انتخاب بھی درست نہیں تھا،یاسر شاہ نے سنچورین ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں اکلوتی وکٹ حاصل کی تو اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی،پہلی باری میں انہوں نے صرف 4اوورز کروائے، کیپ ٹاؤن ٹیسٹ سے قبل ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے تسلیم کیا کہ پہلے میچ میں فہیم اشرف کو شامل نہ کرنا غلط فیصلہ تھا، تاہم ٹیم مینجمنٹ نے کیپ ٹاؤن میں بھی یاسر شاہ کو برقرار رکھا، لیگ سپنر پہلی اننگز میں ایک بھی وکٹ نہ حاصل کرپائے، دوسری میں موقع ہی نہ ملنے کا امکان خود ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے پریس کانفرنس میں جمعہ کو ہی کردیا تھا۔

یاد رہے کہ ایشین کنڈیشنز میں راج کرنے والے یاسر شاہ کی جنوبی افریقہ، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں مجموعی کارکردگی پر سوالیہ نشان موجود ہے، لیگ سپنر نے گزشتہ 10 ٹیسٹ میں 60کے قریب اوسط سے رنز دیتے ہوئے صرف 28 وکٹیں حاصل کی ہیں، ان میں سے 10 صرف ایک ہی میچ لارڈز ٹیسٹ میں تھیں، جنوبی افریقہ نے چوتھے پیسر ورنون فلینڈر کو شامل کرنے کیلیے واحد سپنر کیشو مہاراج کو ڈراپ کیا تو اس کی کوئی معقول وجہ تھی لیکن پاکستان نے سنچورین کے ناکام تجربے میں اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کو دہرایا، کیپ ٹاؤن کی کنڈیشنز میں فہیم اشرف نہ صرف کہ بولنگ میں ٹیم کے کام آسکتے تھے بلکہ بیٹنگ میں بھی ان کی جانب سے چند قیمتی رنز کا اضافہ کی امید کی جاسکتی تھی۔

ٹی ٹوئنٹی میں عالمی نمبر ون پاکستان ٹیم کی ٹیسٹ کرکٹ میں مشکلات کا حل راتوں رات تلاش نہیں کیا جاسکتا، پی ایس ایل کی کامیابی پر شادیانے بجانے والے پی سی بی نے طویل فارمیٹ کیلیے ٹیلنٹ تیار کرنے پر توجہ نہیں دی، ترجیحات بدلنے اور ڈومیسٹک کرکٹ پر توجہ نہ دینے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پی ایس ایل میں کارکردگی کی بنیاد پر سامنے آنے والے پلیئرز کو ہی ٹیسٹ کرکٹ کے لیے منتخب کیا جارہا ہے، قائداعظم ٹرافی میں پرفارم کرنے والے اگر چند کرکٹرز سامنے آبھی جائیں تو ان کو مواقع نہیں دیئے جارہے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں زوال کی وجوہات ان حقائق میں بھی تلاش کی جاسکتی ہیں کہ 90کی دہائی میں ڈومیسٹک مقابلوں کے ہر سیزن میں 8 سے 10 تک ڈبل سنچریز سکور ہوتی تھیں، بعد ازاں ان کی تعداد 3,4 تک محدود رہ گئی ہے، ملکی سطح پر کرکٹ کا ڈھانچہ درست کرنے کے ذمہ دار پرانے چہرے اب بھی عہدوں پر قابض ہیں، بطور ایم ڈی تقرری پانے والے وسیم خان انگلش کرکٹ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، انھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہتری لانے کو اولین ترجیح قرار دیا ہے لیکن پرانے فارمولوں کو بار بار آزمانے والے عہدیداروں سے جان چھڑائے بغیر مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔