بادلوں کو نجانے کس بات کا غصہ تھا اتنے زور سے گرج رہے تھے کہ لوگوں کے دل دھڑک جاتے، پھر اتنی تیز بارش ہوئی کہ مت پوچھیے، میں اس وقت نماز جمعہ کی تیاری کر رہا تھا اور اسی وقت سمجھ گیا کہ اب کراچی میں پہلا ون ڈے انٹرنیشنل نہیں ہو سکے گا، جس طرح شہر کا انفرااسٹرکچر تباہی کا شکار ہے نیشنل اسٹیڈیم کا حال بھی کچھ اچھا نہیں۔
حالانکہ پی سی بی نے ڈیڑھ ارب روپے سے تزئین وآرائش کا کام کرایا تھا مگرچند منٹ کی برسات سے ہی اسٹیڈیم تالاب کا منظر پیش کرنے لگا، مختلف مقامات کی چھتیں ٹپکنے لگیں، شہرقائد میں بارش شازونادر ہی ہوتی ہے اس لیے شاید بورڈ بھی تیار نہیں تھا،اس نے کوئی پلان بی بھی نہیں بنایا، سری لنکا سمیت کئی ممالک ابررحمت برسنے پر گراؤنڈ کو مکمل ڈھانپ دیتے ہیں مگر ہمارے پاس اتنی سہولتیں ہی موجود نہیں، ڈیڑھ ارب میں سے اگر چند لاکھ کورز کیلیے بھی رکھ لیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔
سوشل میڈیا پر نیشنل اسٹیڈیم کے نکاسی آب سسٹم کا خاصا مذاق اڑایا گیا، ایک سری لنکن صحافی نے تو ازرائے مذاق یہ تک لکھ دیا کہ ’’سری لنکن بورڈ پاکستان کو کورز تحفے میں دیدے‘‘۔ مجھے بیچارے شائقین کرکٹ کی تصاویر دیکھ کر بھی بڑا افسوس ہوا جو پانی سے بھرے روڈ کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر پار کر رہے تھے، میڈیا نے ان سب باتوں کی نشاندہی کی تو بورڈ نے یہ حل نکالا کہ ہفتے کے روز صحافیوں کو اسٹیڈیم میں جانے ہی نہیں دیا گیا، ورنہ وہ پھر پول کھول دیتے۔
پی سی بی نے نئے ڈومیسٹک سسٹم کو سوشل میڈیا پر کامیاب دکھانے کیلیے تمام تر توانائیاں جھونک دیں مگرسری لنکن ٹیم 10برس بعد سیریز کھیلنے پاکستان آئی تو اس کی کوئی ہائپ نہیں بنائی، آج بھی قائد اعظم ٹرافی کے حوالے سے مواد کی بھرمار ہے مگر دونوں ٹیموں نے دن کیسے گذارا،پریکٹس کا کیا شیڈول ہے ہفتے کی رات8بجے تک کچھ نہیں بتایاتھا، ویسے ہمیں اگربڑی ٹیموں کو پاکستان لانا ہے تو انھیں باہر آنے جانے کا موقع بھی دینا ہوگا، جیسے سری لنکن ٹیم کراچی آئی ہوئی ہے مگر ہوٹل سے سوائے اسٹیڈیم کے اب تک کہیں نہیں گئی۔
ہمارے ملک کے حالات اب ٹھیک ہیں، سیکیورٹی ادارے بہترین انداز میں فرائض نبھاتے ہیں، مکمل سیکیورٹی فراہم کر کے مہمانوں کو بھی سیروتفریح کے مواقع دیں، خیر ابھی تو بارش نے شہر کا حال خراب کیا ہوا ہے، البتہ جب کبھی موقع ملے تو ضرور انھیں کہیں لے کر جائیں تاکہ ماحول کچھ تبدیل ہو اور دنیا میں بھی اچھا پیغام جائے، پہلا ون ڈے تو بارش کی نذر ہو گیا مگر امید ہے اگلے دونوں مقابلوں کا انعقاد ہو سکے گا، البتہ اتوار والا میچ پیر کو منتقل کرنے سے شائقین الجھن میں پڑگئے ہیں، چھٹی والے دن زیادہ کراؤڈ آنے کی توقع تھی۔
ورکنگ ڈے میں زیادہ افراد کا آنا دشوار ہے، ویسے بھی سری لنکن ٹیم میں اہم کرکٹرز کی عدم موجودگی اور پی سی بی کی کمزور مارکیٹنگ نے پہلے ہی سیریزکی کوئی ہائپ نہیں بنائی رہی سہی کسر موسم نے پوری کر دی،اسکولز و کالجز کے طالب علموں کو ہی مفت میچ دیکھنے بلا لیں تاکہ اسٹیڈیم میں کچھ رش تو دکھائی دے۔ نیشنل اسٹیڈیم ان دنوں قذافی اسٹیڈیم لاہور زیادہ لگتا ہے، بورڈ کے تقریباً تمام اعلیٰ عہدیدار اور بعض دیگر ملازمین کراچی آئے ہوئے ہیں۔
سی ای او وسیم خان نے کئی دنوں سے شہر میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے ون ڈے سے قبل انھوں نے اسٹیڈیم آنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی بلکہ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلزکو تشہیری انٹرویوز دیتے رہے،وہ مسلسل نئے ڈومیسٹک سسٹم کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کررہے ہیں مگر کوئی ان سے پوچھے کہ جناب آپ کیا ایک دن بھی کوئی میچ دیکھنے گئے، وسیم اور چیئرمین احسان مانی مختلف اداروں کے اعلیٰ حکام سے بھی ملاقاتیںکر رہے ہیں تاکہ ڈومیسٹک کرکٹ کی اسپانسر شپ پر قائل کیا جائے البتہ اب تک کہیں سے زیادہ حوصلہ افزا جواب نہیں ملا، ان دنوں ملکی معیشت کا جو حال ہے اس میں مشکل ہی ہے کہ کسی نجی ادارے سے کوئی بڑی ڈیل ہو سکے، البتہ سرکاری اداروں کی بات اور ہے۔
پی ایس ایل فرنچائزز کے نمائندوں سے بھی اہم میٹنگ پیر کو ہو گی، جس طرح نئے پی سی بی میں اس لیگ کو نظرانداز کیا گیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اب تک کہیں اور سنا ہے کہ ایونٹ ختم ہوئے 6،7ماہ ہو جائیں اور اکاؤنٹس فائنل نہ ہوں، آمدنی میں سے شیئر دیا نہیں اور اگلی بینک گارنٹی کیلیے ڈرانا شروع کر دیا جائے، بورڈ حکام کو اپنی متکبرانہ پالیسی ترک کرتے ہوئے فرنچائزز سے اچھی طرح بات کرنا ہوگی، ان کی شکایات جائز ہیں انھیں دور کر دیں گے تو خود بینک گارنٹی جمع کرانے دوڑے دوڑے آئیں گے، دھونس دھمکی سے پی ایس ایل کو تباہ کرنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ویسے ہم لوگ نجم سیٹھی کو برا بھلا کہتے تھے مگر انھوں نے جیسے تیسے کر کے لیگ کو سنبھالا ضرور ہوا تھا اب بدقسمتی سے معاملات کنٹرول میں نہیں لگتے، سیٹھی صاحب کی بھی کئی فائلز تیار ہو چکی ہیں، کچھ سوچ کر ہی وہ کافی عرصے سے بیرون ملک مقیم ہیں، ویسے ابتدائی 2 ایڈیشنز میں اگر اتنی بے ضابطگیاں ہوئیں تو آڈٹ رپورٹ سامنے آئے ایک سال سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود نئی انتظامیہ کیوں خاموش ہے، ذمہ داران کیخلاف ایکشن کیوں نہیں لیا، الٹا نجم سیٹھی کو سری لنکا سے میچ دیکھنے کی دعوت دے دی، ایسی باتوں پر سوائے ہنسنے کے کیا کر سکتے ہیں۔
ہوم سیریز مرحوم عبدالقادر کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اچھا موقع ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں لگتا کہ بورڈ اس حوالے سے کچھ سوچ رہا ہے، سینئر صحافی سہیل عمران نے ٹویٹر پر اس حوالے سے بعض اچھی تجاویز دی ہیں ان پر ضرور غور کرنا چاہیے، سری لنکا سے لاہور میں ہونے والا کوئی ایک ٹی ٹوئنٹی میچ عبدالقادر سے منسوب کر دینا چاہیے، ان کیلیے خصوصی تقریب کا اہتمام کریں جس میں اہل خانہ کو بھی مدعو کیا جائے تاکہ دنیا کو احساس ہو کہ ہم اپنے ہیروز کو بھولتے نہیں ہیں۔