کوئی بھی آئی سی سی ایونٹ ہو،ٹیمیں برسوں قبل ہی اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے پلاننگ اور تیاری شروع کردیتی ہیں۔
تجربات کاسلسلہ جاری رکھا جاتا ہے، مختلف کمبی نیشن آزمائے جاتے ہیں، بالآخر کرکٹرز کا ایک ایسا پول تیار کیا جاتا ہے جس میں سے متوازن اسکواڈز کا انتخاب آسان ہوجائے،پاکستان کرکٹ کی منیجمنٹ ہو یا ٹیم کچھ بھی یقینی نہیں ہوتا، اسی وجہ سے فیصلوں میں بھی غیر مستقل مزاجی نظر آتی ہے۔
ان حالات میں کبھی کبھار چیمپئنز ٹرافی2017کی فتح کو کرشمہ ہی کہا جاسکتا ہے،اس کی بڑی وجہ سے ملک کے کونے کونے سے آنے والا خام ٹیلنٹ ہے جو دنیا کو حیران و پریشان کرکے رکھ دیتا، انگلینڈ میں پاکستان سے اس تاریخی کامیابی میں بھی حسن علی، فخرزمان اور شاداب خان دوسری ٹیموں کیلئے سرپرائز پیکیج ثابت ہوئے تھے،بہرحال ایسا ہر بار نہیں ہوتا، میگا ایونٹس جیتنے کیلئے ٹھوس پلاننگ اور بھرپور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل بھی پاکستان کرکٹ مختلف معاملات میں الجھی نظر آئی، چیئرمین پی سی بی احسان مانی کی جگہ رمیز راجہ نے پی سی بی کی کمان سنبھالی،مروجہ طریقہ کار کے مطابق انتخاب کی رسمی کارروائی مکمل ہونے کے دوران ہی کئی اہم فیصلے بھی ہوئے،ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس کا پی سی بی کے ساتھ سفر تمام ہوا،جلد بازی میں ورلڈکپ اسکواڈ کا اعلان کیا گیا،نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کیخلاف سیریز کو تیاریاں جانچنے کا پیمانہ قرار دیتے ہوئے ثقلین مشتاق اور عبدالرزاق کو عبوری طور پر کوچنگ کی ذمہ داریاں سپرد کی گئیں،ورلڈکپ اسکواڈ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بعض کھلاڑیوں کی شمولیت پر اعتراضات اٹھائے گئے۔
گوری ٹیموں کی بیوفائی کے سبب گرین شرٹس کو اپنے ہتھیاروں کی آزمائش کا موقع نہ مل سکا، کرکٹرز کیلئے اپنی صلاحیتیں ثابت کرنے کا واحد موقع نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ رہ گیا،خیال تھا کہ یواے ای سے ملتی جلتی پاکستان کی کنڈیشنز میں ورلڈکپ کے امیدوار جاندار کارکردگی پیش کرکے اپنا اعتماد بحال کرلیں گے لیکن کئی ڈومیسٹک میچز میں ہی میگا ایونٹ جیسا دباؤ محسوس کرتے ہوئے پرفارم نہیں کرسکے، خدشات کے عین مطابق پاکستانی اسکواڈ کا کمبی نیشن متوازن بنانے کیلئے تبدیلیوںکا فیصلہ کرنا پڑا۔
چیف سلیکٹر محمد وسیم کی کپتان بابر اعظم اور نائب کپتان شاداب خان سے مشاورت کے بعد چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے بھی بابر اعظم سے ملاقات میں حتمی فیصلے کئے اور 3مہرے تبدیل کردیئے گئے، ڈومیسٹک ایونٹ میں ایک بھی متاثر کن اننگز نہ کھیل پانے والے اعظم خان خود پر ہونے والی تنقید کا بیٹ سے جواب دینے میں ناکام رہے اور تسلسل کے ساتھ ذمہ درانہ اننگز کھیلنے والے سرفراز احمد کو شامل کرلیا گیا، امکان یہی ہے کہ گزشتہ کئی ٹورز کی طرح سابق کپتان ورلڈکپ میں بھی ریزور وکٹ کیپر کے طور پر فارغ بیٹھے رہیں گے۔
وکٹ کیپر بیٹسمین کا یواے ای میں ٹریک ریکارڈ اچھا ہے، بہتر ہوگا کہ ان کو مڈل آرڈر میں کھیلنے کا موقع دیتے ہوئے صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے، محمد حسنین کو ڈراپ کرتے ہوئے بیٹنگ کو تقویت دینے کیلئے ان فارم حیدر علی کو شامل کرنا بہتر فیصلہ ہے، نوجوان بیٹسمین 2ماہ قبل کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر دورہ انگلینڈ سے واپس بھجوادیئے گئے تھے مگر انہوںنے نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اپنی بیشتر اننگز میں انہوں نے ماضی کی طرح جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکٹ گنوانے کے بجائے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھے اسٹروکس بھی کھیلے ہیں، یواے ای کی کنڈیشنز میں اسپنرز کا زیادہ کردار ہوگا، اس کے پیش نظر آؤٹ آف فارم محمد حسنین کو ڈراپ کرنا درست فیصلہ ہے۔
خوشدل شاہ بھی ڈومیسٹک ایونٹ میں ایک آدھ بڑی اننگز ہی کھیل پائے ہیں، ان کی جگہ تجربہ کار فخر زمان کو 15رکنی اسکواڈ کاحصہ بنانا بھی خوش آئند ہے، خوشدل شاہ تو ریزروز میں چلے گئے، حیران کن طور پر ان جیسی کارکردگی دکھانے والے ایک اور بیٹسمین آصف علی بدستور 15رکنی اسکواڈ کا حصہ ہیں، کمر کی تکلیف کا شکار صہیب مقصود کا ڈراپ ہونا پاکستان کیلئے ایک دھچکا ہے، پاکستانی کیلئے ایک نقصان تھا مگر شعیب ملک کی صورت میںاس کی بہت حد تک تلافی ہوگئی ہیں، تجربہ کار آل راؤنڈر ٹیم کیلئے کار آمد ثابت ہوسکتے ہے۔ یو ای ای کی کنڈیشنز میں ان کا اسٹڑوک پلے پاکستان کو بڑے اسکورز کیلئے بنیاد فراہم کرسکتا تھا، خوشدل شاہ کے ساتھ ریزروز میں شامل شاہنواز دھانی اور عثمان قادر کو بھی کسی کی انجری یا تکنیکی وجہ سے متبادل کے طور پر شامل کرنے کا موقع ہوگا۔
بابر اعظم (کپتان)، شاداب خان (نائب کپتان)، فخر زمان، محمد حفیظ، حیدر علی، آصف علی، محمد رضوان، سرفراز احمد، عماد وسیم، محمد نواز، شاہین شاہ آفریدی، حسن علی، حارث رؤف، محمد وسیم جونیئر پر مشتمل اسکواڈ بظاہر متوازن نظر آرہا ہے،اب اصل امتحان کپتان بابر اعظم، ثقلین مشتاق کی رہنمائی میں کوچنگ پینل کا ہوگا کہ وہ کس حریف کیخلاف کیا کمبی نیشن میدان میں اتارنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ورلڈ کپ کے لیے منتخب قومی اسکواڈ نے جمعہ کی رات ہی لاہور میں رپورٹ کردی تھی،ہوٹل آمد پر کرکٹرز، معان عملہ اور فیملیز کی کورونا ٹیسٹنگ کیلئے سیمپل حاصل کئے، خوش آئند بات ہے کہ کسی بھی رکن کی رپورٹ مثبت نہیں آئی، ایک روزہ آئسولیشن ختم ہونے کے بعد قومی کرکٹرز آج سے اپنے ٹریننگ سیشنز کا آغاز کررہے ہیں،بہرحال تیاریوں کا زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا، پہلے روز نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر میں جم سیشن ہوگا۔
دوسرے اور تیسرے روز ایل سی سی اے گراؤنڈ میں نیٹ پریکٹس ہوگی، ایک روز آرام کرنے کے بعد 14 اکتوبر کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں سیناریو بیس میچ کھلاڑیوں کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کرے گا، ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے قومی اسکواڈاگلے روز چارٹرڈ طیارے میں یو اے ای روانہ ہوگا،بعض کھلاڑیوں کی شمولیت یا ڈراپ کئے جانے پر ناقدین کی آوازیں اب بھی اٹھ رہی ہیں، بہرحال یہ پاکستان کا اسکواڈ اور ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ میگا ایونٹ میں گرین شرٹس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دل جیت لیں،پاکستان کی بہتر کارکردگی بے بنیاد سیکیورٹی خدشات کو جواز بناکر دورے منسوخ کرنے والے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کو بھی پیغام دے سکتی ہے کہ عالمی کرکٹ میں ہماری اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔