آسٹریلیا میں پاکستانی بولنگ کے ہتھیار کند پڑ جانے کی روایت 20 سال سے برقرار ہے جب کہ وکٹیں حاصل کرنے کی اوسط دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ رہی۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ آسٹریلوی کنڈیشنز میں پاکستانی بیٹنگ لائن خاص طور پر ٹاپ آرڈر کو زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں۔ درحقیقت گذشتہ 20سال میں بولرز کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی ہے۔
ویب سائٹ ’’کرک انفو‘‘ کی رپورٹ کے مطابق1999سے اب تک پاکستانی بولرز نے کینگروز کے دیس میں 52.62کی اوسط سے وکٹیں حاصل کی ہیں،دنیا کے کسی اور ملک میں گرین کیپس کی اتنی ناقص کارکردگی نہیں رہی،ویسٹ انڈین بولرز 52.82 کی ایوریج سے وکٹیں لیتے رہے ہیں۔
پاکستانی بولرز آسٹریلیا میں فی ٹیسٹ 11.6کی اوسط سے وکٹیں حاصل کرتے رہے جو سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے بعد دوسری ناقص ترین کارکردگی ہے،گرین کیپس یہاں کسی بھی ٹیم سے زیادہ 3.82رنز فی اوور دیتے رہے ہیں،اس عرصے میں پاکستانی پیسرز نے جنوبی افریقہ، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں 31.75کی اوسط سے وکٹیں لیں۔
آسٹریلیا میں ایوریج 48.49 رہی،ریورس سوئنگ پاکستانی بولرز کا مہلک ترین ہتھیار سمجھی جاتی ہے لیکن کینگروز کے دیس میں یہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوا،21ویں سے 80ویں اوورز کے دوران پیسرز نے 53.74اور اسپنرز نے 66.8کی اوسط سے وکٹیں حاصل کی ہیں،زمبابوے اور بنگلہ دیش کے بعد یہ کسی بھی ٹیم کی ناقص ترین کارکردگی ہے۔
وقار یونس، شعیب اختر، عبدالقادر، یاسر شاہ اور سعید اجمل سمیت پاکستان کے ٹاپ 10 بولرز کی آسٹریلیا میں فی وکٹ اوسط مجموعی کیریئر کی بانسبت کافی زیادہ رہی، وسیم اکرم کی کیریئر اوسط 23.62 اور کینگروز کے دیس میں 24.05ہے، مشتاق احمد کی کیریئر ایوریج 32.97اور آسٹریلیا میں 33.59 ہے، عمران خان کی کیریئر ایوریج 22.81 اور آسٹریلیا میں 28.51ہے،ان کے علاوہ دیگر بولرز کی کارکردگی میں بھی نمایاں فرق ہے۔