بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ بھارتی حکومت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا گھنائونا اقدام کیا تھا ۔
تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی ٹیم وشاکا پٹنم میں ہونے والی وزی ٹرافی میں حصہ لے رہی تھی مگر سیکورٹی معاملات اور بھارت کی جانب سے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرنے پر مقبوضہ کشمیر کی ٹیم نے ٹورنامنٹ سے خود کو باہر نکال لیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی کرکٹ ایسوسی ایشن کو گورنر ستیہ پال ملک کی طرف سے سیکورٹی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکی جن کے ذمے کھلاڑیوں اور دیگر اسٹاف کے سفری انتظامات کو یقینی بنانا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی جانب سے کپتان پرویز رسول سمیت متعدد کھلاڑیوں سے کوئی رابطہ ہی نہیں کیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر کی کرکٹ ایسوسی ایشن کے سی ای او شاہ بخاری کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ کھلاڑیوں سے رابطہ اور ابلاغ نہ ہونا ہے۔ ہم نے اپنی ایسوسی ایشن کے دفتر میں تمام کھلاڑیوں کے موبائل فون نمبرز فراہم کررکھے تھے آج کے دور میں چونکہ یہاں کوئی بھی لینڈ لائن نمبر استعمال نہیں کرتا تو ہم سب موبائل فون نمبرز پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ ہم نے کوشش کرکے اپنے کچھ کھلاڑیوں سے رابطہ ممکن بنایا مگر مقبوضہ وادی میں مسلسل کرفیو ہے جبکہ فون اور انٹرنیٹ کی بندش کے باعث ہم اپنے بیشتر کھلاڑیوں سے رابطہ قائم نہیں کرپائے ہمیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ اس وقت ٹیم کے کپتان پرویز رسول کہاں ہیں؟
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسوسی ایشن نے ان کھلاڑیوں سے مسلسل رابطے کو ممکن کیوں نہیں بنایا تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مقبوضہ وادی کے کرفیو زدہ گائوں دیہات میں اپنی گاڑیاں کیسے بھیج سکتے ہیں کیونکہ ہمیں قطعی علم نہیں ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ ہم اس حوالے سے کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتے کیونکہ یہ بی سی سی آئی کا ٹورنامنٹ نہیں بلکہ ایک مقامی ٹورنامنٹ ہے اس لیے ہم نے یہی بہتر سمجھا کہ اس ٹورنامنٹ میں حصہ ہی نہ لیا جائے۔
اگست کے پہلے ہفتے میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بہت بڑھ چکی ہے، 5 اگست کے بعد سے مقبوضہ وادی میں مسلسل کرفیو نافذ ہے۔ وادی کے حالات سے دنیا کو بے خبر رکھنے کے لیے قابض فوج نے فون اور انٹرنیٹ بند کررکھا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے مسلسل عالمی برادری سے استدعا کی جارہی ہے کہ وہ مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم کا نوٹس لے۔