پاکستانی نژاد زمبابوین کرکٹر سکندر رضا کا کہنا ہے کہ لیگز اپنی جگہ میری اصل توجہ انٹرنیشنل کرکٹ پر مرکوز ہے۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pkکو خصوصی انٹرویو میں سکندر رضا نے کہاکہ میں زمبابوین ٹیم کے ساتھ2015 میں انٹرنیشنل میچز کیلیے لاہور آیا تھا، وہاں بڑا خوشگوار وقت گزرا اور ڈھیروں محبتیں سمیٹیں، گزشتہ پی ایس ایل سیزن میں بھی لاہور میں کھیلے،اس بار کراچی میں بھی موقع مل گیا اور لاہوریوں کی طرح کراچی والوں کی جانب سے بھی بڑی پیار مل رہا ہے۔
سکندر رضا کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل میچز کا سلسلہ جلد مکمل طور پر بحال ہو جائے،ہم کراچی میں ساتھی کرکٹرز اور دوستوں کے گھروں سے بھجوائے کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ میں کراچی کنگز میں شامل کئی کھلاڑیوں کے مقابل انٹرنیشنل کرکٹ کھیل چکا ہوں، چند ایک کے ساتھ لیگز میں بھی شرکت کا موقع ملا،ہم سب ایک دوسرے کی بڑی عزت کرتے ہیں۔
ایک سوال پر سکندر رضا نے کہا کہ لیگز اپنی جگہ مگر میری اصل توجہ انٹرنیشنل کرکٹ پر ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ زمبابوے کی جانب سے کسی بھی فارمیٹ میں کھیلنے کا موقع ملے اچھی کارکردگی دکھاؤں، انٹرنیشنل کرکٹ میں تسلسل کے ساتھ پرفارم کریں تو لیگز کھیلنے کے مواقع بھی ملتے رہتے ہیں۔
کراچی کنگز کی جانب سے اب تک کم مواقع ملنے اور صرف بولنگ میں زیادہ بہتر پرفارم کرنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ آل راؤنڈرز پر ہمیشہ دہرا دباؤ ہوتا ہے، کسی ایک شعبے میں بھی کارکردگی بہتر ہو تووہ اطمینان کا باعث ہوتی ہے، بہرحال میں بیٹنگ میں بھی بہتر پرفارم کرنے کیلیے کوشاں ہوں۔
سکندر نے بنگلہ دیش کیخلاف تاریخی فتح میں اہم کردارکویادگارقراردیدیا
سکندر رضا نے بنگلہ دیش کیخلاف تاریخی فتح میں اہم کردار کو یادگار قرار دیدیا، سلہٹ ٹیسٹ میں میزبان ٹیم کو 151 رنز سے شکست دینے والے اسکواڈ میں شامل آل راؤنڈر نے کہا کہ زمبابوے نے 17 سال بعد ملک سے باہر کوئی ٹیسٹ میچ اور سیریز جیتی جس میں میرا بھی اہم کردار تھا، کسی بھی کرکٹر کیلیے یہ بڑے فخر کی بات ہوتی ہے کہ مستقبل میں جب بھی کسی تاریخی کامیابی کا ذکر کیا جائے تو کارنامہ سرانجام دینے والوں کی فہرست میں اس کا نام بھی درج ہو۔
فائٹر پائلٹ بننے کی خواہش، سکندر نظر کے ٹیسٹ میں فیل ہونے پرکرکٹر بن گئے
فائٹر پائلٹ بننے کی خواہش رکھنے والے سکندر رضا نظر کے ٹیسٹ میں فیل ہونے پر ٹیسٹ کرکٹر بن گئے۔ان کا کہنا ہے کہ والد 2002 میں کاروبار کے سلسلے میں زمبابوے گئے تو وہاں زندگی گزارنے اور تعلیم کے اچھے مواقع دیکھتے ہوئے اگلے سال ہی خاندان کو بھی بلا لیا، اس وقت دور دور تک بھی خیال نہیں تھا کہ میں ٹیسٹ کرکٹر بنوں گا،میں فائٹر پائلٹ بننا چاہتا تھا، ساڑھے 3سال تک مری میں قائم لوئر ٹوپہ پی اے ایف کالج میں بھی رہا، نظر کے ٹیسٹ میں پاس نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواب ادھورا رہ گیا تاہم زندگی میں کبھی کوئی پچھتاوا محسوس نہیں کیا، ہر چیز سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتا رہا اور مواقع بھی ملتے گئے۔