’’آج مجھے پتا چل گیا کہ تمہیں انضمام الحق سے کیا مسئلہ ہے، مجھے۰۰۰ نے بتایا کہ تم چیف سلیکٹر کے گھر گئے اور انھوں نے تمہیں اندر نہیں آنے دیا تھا‘‘ پاکستان کرکٹ سے جڑی ایک شخصیت نے جب ایک ٹی وی شو ہوسٹ کا نام لے کر مجھ سے یہ کہا تو میری ہنسی چھوٹ گئی، میں نے ان سے کہا جناب میں ایک دن سے زیادہ لاہور میں رہتا نہیں اور اس دوران اتنی مصروفیات ہوتی ہیں کہ قریبی دوستوں سے بھی نہیں مل پاتا،اس بار ایک دن میں7انٹرویوز کرکے واپس آیا.
جہاں تک بات انضمام الحق کی ہے تو آپ پی سی بی کے سابق ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی، موجودہ ڈائریکٹر سمیع الحسن برنی یا میڈیا منیجر رضا راشد کسی سے بھی پوچھ لیں آج تک میں نے کبھی ان کے انٹرویو کیلیے کوئی درخواست نہیں کی، برسوں سے میں نے انھیں کوئی فون کال نہیں کی، البتہ جن صاحب نے آپ کو یہ بات بتائی ان کے بارے میں انضمام نے کچھ عرصے قبل کہا تھا کہ ’’ وہ میرے سامنے آیا تو تھپڑ مار دوں گا، پھر ان کی صلح بھی ہو گئی تھی‘‘۔
قارئین یہ سب کچھ آپ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ سچ بات کریں، کسی پر تنقید کریں تو آج کل ایسی ہی باتیں پھیلائی جاتی ہیں، انٹرویو نہیں دیا ہوگا، کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہوگا، اگر ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دیتے رہیں تو بعض لوگوں کوکیسے کیسے فوائد حاصل ہوتے ہیں اس کے بارے میں آپ کو آئندہ کبھی بتاؤں گا، مجھے انضمام الحق سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے، وہ ٹویٹر پر خود کو ’’انضی دی لیجنڈ‘‘ لکھتے رہے تو وہ درست بھی تھا انضمام بہرحال لیجنڈ تو ہیں تاہم اپنے منہ میاں مٹھو بننا اچھا نہیں لگتا،خیر اب تو انھوں نے ٹویٹر کا اپنا نام تبدیل کر دیا ہے۔
انضمام الحق کو پی سی بی میں تین سال ہو گئے، اس دوران انھوں نے کتنے کھلاڑیوں کو متعارف کرایا یہ سب کے سامنے ہے،البتہ کتنے پلیئرز کے کیریئر بگاڑے یہ بھی سب جانتے ہیں، خیر اب تو وہ جانے والے ہیں امید ہے نیا چیف سلیکٹر نظرانداز شدہ کرکٹرزکوانصاف دلائے گا۔ انضمام کی طرح یونس خان بھی پاکستان کے ایک عظیم بیٹسمین ہیں، بھارت میں راہول ڈریوڈ کو جونیئر ٹیم کی کوچنگ سونپی گئی اور یہ تجربہ کامیاب رہا،پاکستان نے بھی یہی سوچ کر یونس کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہا مگر مالی امور اور اختیارات پر بات نہیں بن سکی۔
یونس کے ساتھ تھوڑا رویے کا مسئلہ ہے، اسی وجہ سے اتنا بڑا بیٹسمین ہونے کے باوجود انھیں وہ مقام نہیں مل سکا جو ملنا چاہیے تھا، کیریئر کے اختتامی دنوں میں غلط ہاتھوں میں کھیل کر انھوں نے اپنے آپ کو مزید متنازع بنایا، ایک میچ کھیل کر ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرہونا اس کی واضح مثال تھی، بورڈ ذرائع بتاتے ہیں کہ یونس نے بہت بھاری معاوضہ طلب کیا، ساتھ ہی وہ کوچنگ کے ساتھ چیف سلیکٹر بھی بننا چاہتے تھے، انھوں نے اپنے ساتھ ارشد خان اور عبدالرزاق کو بھی رکھنے کی خواہش ظاہر کر دی تھی، اتنے سارے مطالبات دیکھ کر بورڈ پریشان ہوگیا، کچھ عرصے قبل نیشنل اکیڈمی میں کوچنگ کورس کیلیے جب وہ گئے تھے تو مدثر نذر کا کمرہ الاٹ ہونے پر احتجاجاً واپسی اختیار کر لی تھی۔
اکیڈمی کے بعض’’ بڑوں‘‘ کا بھی کہنا تھا کہ یونس کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں ہوگا، اس پر طے یہ ہوا تھا کہ وہ براہ راست چیئرمین اور ایم ڈی کو رپورٹ کریں گے، البتہ بات بن نہ سکی، ویسے اگر وہ عہدہ قبول کر لیتے تو بھی ایک سال تک بھی برقرار رہنا ممکن نہ تھا، اگر کسی بڑے کھلاڑی کو کوچ بنانا ہے تو بورڈ کے پاس اتنے آپشنز موجود نہیں، دیکھتے ہیں کیا فیصلہ سامنے آتا ہے،ویسے اپنے پاس موجود کوچز سے ہی مزید استفادہ کرنا چاہیے، بدقسمتی سے غیرملکی ٹورز پر منظور نظر افراد کا ہی تقرر ہوتا ہے جس سے کئی باصلاحیت کوچز کو تجربہ حاصل کرنے کا موقع نہیں مل پاتا، اس حوالے سے روٹیشن پالیسی اپنانا ہو گی تاکہ تمام کوچز ہی اپنے کام میں نکھار لا سکیں، البتہ بورڈ حکام ابھی خود پریشان ہیں وہ اس حوالے سے کیا سوچیں گے۔
انگلینڈ کے ٹھنڈے موسم میں بھی چیئرمین اور ایم ڈی کے پاکستان سے آنے والی خبروں پر پسینے چھوٹ رہے ہوں گے، گورننگ بورڈ والا معاملہ گلے کی ہڈی بننے لگا ہے، عدالت میں کیسز چلے گئے ہیں جس سے واضح طور پر پی سی بی تشویش کا شکارہے، گوکہ وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے کہ ہر حال میں ڈومیسٹک کرکٹ سیٹ اپ تبدیل کرنا ہے مگر اتنی جلدی سب کچھ کیسے ہوگا یہی حکام کیلیے درد سر بن چکا،جلد بازی سے کام لینے کے بجائے تبدیلیوں کو اگلے سال تک موخر کر دینا چاہیے، جو کھلاڑی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھ سکتے ہیں انھیں بھی اس دوران متبادل کام کیلیے کوئی آپشن مل سکے گا، اتنی جلدی فیصلہ کر کے تھوپ دیا تو یقینی طور پر کئی بڑے مسائل سامنے آئیں گے، سنا یہی ہے کہ ہارون رشید اور دیگر یس مین اعلیٰ حکام کی ہدایت پر نیا ڈومیسٹک نظام تشکیل دینے کیلیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
احسان مانی اور وسیم خان بھی انگلینڈ سے واپس آنے ہی والے ہیں، یہ سب مل کر ایک پرپوزل تیار کریں گے جسے پھر عمران خان کے سامنے پیش کیا جائے گا، چونکہ جو کچھ انھوں نے کہا تھا وہ سب مان لیا گیا اس لیے اب منظوری مل ہی جائے گی، اس کے بعد عمل درآمد کیلیے طوفانی رفتار سے کام کرنا ہوگا، ورلڈکپ بھی شروع ہونے والا ہے، اس میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی کا بھی بورڈ پر بہت اثر پڑے گا، امید ہے نتائج اچھے رہیں گے البتہ خدانخواستہ کچھ گڑبڑ ہوئی تو حکام ویسے ہی سخت دباؤ کا شکار ہو جائیں گے، ایسے میں ڈومیسٹک سیٹ اپ میں من مانیاں کرنا آسان نہ ہوگا، پاکستان کرکٹ کے لیے اگلے 2 ماہ بہت اہمیت کے حامل ہیں، ہمیں یہی دعا کرنی چاہیے کہ اچھی خبریں سامنے آئیں تاکہ کرکٹ مزید پھلے پھولے۔