پی سی بی کرکٹ کمیٹی کے سربراہ محسن خان کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ فارمیٹ کی قیادت کا اضافی بوجھ نہ ڈالنے کی بات ڈیڑھ سال قبل کی تھی،اس عرصے میں وکٹ کیپر بیٹسمین نے اتار چڑھاؤ دیکھتے ہوئے بہت کچھ سیکھ لیا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے سلیم خالق کو خصوصی انٹرویومیں کرکٹ کمیٹی کے سربراہ محسن حسن خان نے کہا کہ میں نے سرفراز احمد کی ٹیسٹ کپتانی کے حوالے سے بیان ڈیڑھ سال قبل دیا تھا، اس وقت میرا خیال تھا کہ ایک باصلاحیت اور پْرعزم نوجوان کرکٹر پر اتنا بوجھ نہ پڑ جائے کہ ہمت ہی جواب دے جائے۔
محسن خان نے کہا کہ سرفراز کو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کپتان کے طور پر گروم کرتے ہوئے ذہنی طور پر پختہ ہونے کے بعد ٹیسٹ فارمیٹ کی طرف لایا جائے، آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ سمیت کئی ملکوں میں ایسا ہی کیا جاتا ہے، میری ڈیڑھ سال قبل کی بات کو منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں نے غلط رنگ دیا۔ کپتان تینوں فارمیٹ میں ہارا تو جیتا بھی ہے،اس نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھ لیے اورسیکھا بھی ہے۔
سرفرازاحمدکو ورلڈکپ کیلیے کپتان بنائے جانے کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ کیوں نہیں، سرفراز احمد میرے بچوں کی طرح اور میرے دل میں اس کی بڑی عزت ہے، اس کے اندر عزم اور خلوص ہے،آخری فیصلہ تو چیئرمین پی سی بی کو کرنا ہے، کرکٹ کمیٹی اپنے رائے 100فیصد میرٹ پر دے گی۔
محسن خان نے کہا کہ وزیر اعظم اورپی سی بی کے پیٹرن انچیف عمران خان کوکریڈٹ دینا چاہیے کہ احسان مانی جیسی شخصیت کو چیئرمین بورڈ بنایا، دونوں احتساب کی بات کرتے ہیں، مجھے جب کرکٹ کمیٹی کی سربراہی سنبھالنے کیلیے کہا گیا تو میری احسان مانی سے مختلف موضوعات پر بات ہوئی، جسٹس(ر) قیوم رپورٹ کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا، چیئرمین بورڈ نے کہا کہ ہم کرکٹ کی بہتری چاہتے ہیں،آپ اگر عمران خان اورمجھ پراعتماد کرتے ہیں تو انکار نہ کریں، میں نے خود بطور کرکٹر،سلیکٹر اور کوچ ہمیشہ دیانتداری کے ساتھ کام کیا ہے، اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے۔
انھوں نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم اور چیئرمین پی سی بی کے ویڑن کو دیکھتے ہوئے کرکٹ کمیٹی کی ذمہ داری سنبھالنے کا فیصلہ کیا،اس میں وسیم اکرم، مصباح الحق اور عروج ممتاز جیسے بڑے نام شامل ہیں، ڈومیسٹک اورانٹرنیشنل کرکٹ کی بہتری کیلیے سب مل کر میرٹ پر کام کریں گے، اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا،اب لوٹانے کا موقع مل رہا ہے۔
ایک سوال پر محسن خان نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں مقدار کم اور معیار زیادہ کرنے پر توجہ ہے،ڈپارٹمنٹس نے پاکستان کو کئی نامور کرکٹرز دیے ہیں، ہمارے دور میں بھی والدین بچوں کو اس لیے کھیلنے کی اجازت دے دیتے کہ کسی محکمے میں کم ازکم نوکری تو مل جائے گی،پہلی میٹنگ میں خاص، خاص باتیں ہوئی تھیں، ہم خدمات کو دیکھیں گے، یہ نہیں ہو گا کہ ڈپارٹمنٹس کواٹھاکرباہر پھینک دیں،یہ آسٹریلیا یا انگلینڈ نہیں جہاں اداروں کے بغیر ہی اسپانسرز مل جائیں،ہم کوئی بہتر راستہ تلاش کریں گے، مکمل ہوم ورک کرنے کے بعد میڈیا اور عوام کو حکمت عملی سے آگاہ کردیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ آسٹریلیا اورانگلینڈ جیسے ملکوں میں ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹرز کے معیار میں صرف کیپ کا فرق ہوتا ہے، وزیر اعظم، چیئرمین پی سی بی اور میں خود بھی پاکستان کی کرکٹ کو اس بلندی تک لے جانا چاہتے ہیں۔
مکی آرتھر کو ’’ڈونکی‘‘ کہنے والی بات پرانی ہوگئی،منفی پروپیگنڈہ ہورہا ہے، محسن
محسن خان نے کہا کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو ’’ڈونکی‘‘ کہنے والی بات پرانی ہوگئی، اس وقت میں نے کرکٹ کمیٹی کی باگ ڈور نہیں سنبھالی تھی،جانے کہاں سے پرانی گفتگو ڈھونڈ کر میڈیا پر چلائی گئی،نہ جانے اس وقت میں نے کس تناظر میں بات کی تھی، دراصل میرے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، جس طرح چند کرکٹرز نے ملک کو نقصان پہنچایا، ویسے ہی میڈیا کا نام خراب کرنے والے بعض لوگ بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ پاکستان کرکٹ کا بھلا نہیں چاہتے، جہاں بہتری آنے لگے ان کو تکلیف شروع ہوجاتی ہے، اس لیے معاملات کو متنازع بنانے کی کوشش کررہے ہیں، غلط کام ہوتو ضرور نشاندہی کریں، تعریف نہ کریں لیکن بلاجواز تنقید بھی نہیں ہونی چاہیے۔