سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیم پر مذہبی اثرات نمایاں ہیں، کرکٹرز اپنے سینئرز کا بہت احترام اور اختلاف رائے سے گریز کرتے ہیں تاہم ٹیموں کو آگے بڑھانے کیلیے تعمیری سوچ کے ساتھ گفتگو کا کلچر فروغ دینا ضروری ہے۔
ایک غیرملکی ویب سائٹ کو انٹرویو میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے کہا کہ آسٹریلوی، جنوبی افریقی اور ایشیائی ٹیموں میں بہت بڑا ثقافتی فرق ہے، پاکستان ٹیم کی کوچنگ کے لیے سب سے اہم بات کرکٹرز کی زندگی پر مذہب کے گہرے اثرات کو سمجھنا تھی، نوجوان کھلاڑی اپنے سینئرز کا بے حد احترام اور ان کے ساتھ اختلاف رائے سے بھی گریز کرتے ہیں، مجھے ایک ایسا ماحول پسند ہے کہ کھلاڑی ایک دوسرے کو چیلنج دیں، کھیل کے بارے میں کھل کر بات کریں، اختلاف رائے بھی رکھیں،اسی انداز میں ٹیموں کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، برصغیر میں ایسی بات چیت مشکل سے ہی ہوتی ہے،بہت کم ہوگا کہ کوئی جونیئر کسی سینئر کو چیلنج کرے جبکہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں ایسی گفتگو عام ہے۔
آرتھر نے کہا کہ بڑوں کو عزت دینا اچھی بات لیکن تعمیری سوچ کیساتھ بات چیت اور اختلاف رائے ٹیموں کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان ٹیم کی کوچنگ کرتے ہوئے ایک بڑی مشکل کمزور اسٹرکچر تھا،مجھے کھلاڑیوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر اہداف کیلیے تیار کرنے پر خصوصی توجہ دینا پڑی، پس منظر میں کوئی سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے دشواری بھی پیش آئی،اس کے باوجود مثبت پیش رفت میں کامیاب ہوئے،بابر اعظم کی صلاحیتیں بھانپتے ہوئے انھیں تسلسل کے ساتھ مواقع دیے اور انھوں نے اپنی کلاس بھی ثابت کردی۔