قومی ٹی 20 کپ کی ٹیم خیبرپختونخوا کے لیفٹ آرم اسپنر آصف آفریدی کو اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی پر پی سی بی نے گذشتہ برس معطل کر دیا تھا،اب ان پر 2 برس کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس کیس میں مزید2 کرکٹرز پر بھی شکوک سامنے آئے جبکہ ایک کوچ کا کردار بھی انتہائی مشکوک رہا تھا، کے پی ایل میں آصف آفریدی نے راولا کوٹ ہاکس کی نمائندگی کی،ایونٹ کے آغاز سے قبل ہی منتظمین کو اسپنر پر شک ہوگیا، جب پی سی بی سے استفسار کیا گیا تو جواب ملا کہ کیس کی جڑ تک پہنچنے کے لیے آصف کو کھیلنے سے نہیں روکا گیا۔
جموں جانباز سے راولاکوٹ کے بارش کی نذر ہونے والے پہلے میچ میں اسپنر نے3 اوورز میں 35 رنز دیے اور ایک وکٹ لی، کوٹلی کے خلاف مقابلہ شروع ہونے سے قبل ہی اسے مانیٹر کرنے کی ہدایت جاری ہو چکی تھی، اس میں راولاکوٹ کو10 وکٹوں سے شکست ہوئی۔
آصف آفریدی تیسرے نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے پہلی گیند پر بولڈ ہو گئے،بولنگ کا آغاز کرتے ہوئے انھوں نے 4 اوورز میں 52 رنز دیے مگر وکٹ سے محروم رہے، میچ کے بعد ایونٹ منتظمین کی پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے آفیسر سے تفصیلی بات ہوئی۔
حیران کن طور پر قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے لیے بھی آصف آفریدی کو خیبر پختونخوا کی ٹیم میں شامل کر لیا گیا جس پر بعض حلقوں نے اعتراض کیا،سینٹرل پنجاب کے خلاف انھوں نے 24 رنز کے عوض2 وکٹیں لیں، اس کے بعد انھیں کسی میچ میں نہیں کھلایا گیا اور پھر وہ معطل ہو گئے۔
یاد رہے کہ آصف کی شکایت سب سے پہلے 2021 میں ایک ٹیسٹ کرکٹر نے بورڈ سے کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ اسپنر نے قائد اعظم ٹرافی کے دوران بنگلہ دیش لیگ جوائن کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے بعض میچز میں کسی اور کے لیے بھی ’’کھیلنے‘‘ کا کہا تھا، مذکورہ کرکٹر نے پی سی بی کو بھی معاملے کی رپورٹ کر دی۔
اس پر تحقیقات شروع ہوئی، قائداعظم ٹرافی فائنل کے دوران اینٹی کرپشن یونٹ نے آصف آفریدی کا موبائل فون بھی تحویل میں لے لیا تھا، وہ ویڈیو بیان میں جرم کا اعتراف کر چکے تھے، حیران کن طور پر اس کے باوجود پی ایس ایل ڈرافٹ میں اسپنر کا نام شامل رہا۔
بورڈ کی جانب سے کوئی ہدایت نہ ملنے پر ایک فرنچائز نے انھیں منتخب بھی کر لیا،البتہ ابتدائی 8 میچز میں انہیں نہیں کھلایا گیا،پھر5 میچز میں آزمایا جس میں انھوں نے 15.50 کی اوسط سے 8 وکٹیں حاصل کیں۔
حیران کن طور پر آسٹریلیا سے ہوم سیریز کے اسکواڈ میں بھی آصف آفریدی شامل رہے مگر انھیں کسی میچ میں نہیں کھلایا گیا، پی سی بی نے ہی انھیں افغان لیگ کے لیے این او سی دیا جبکہ کے پی ایل کھیلنے کی بھی اجازت دی۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ اس کیس کے کئی مشکوک افراد کو بچا لیا گیا ہے، بعض کے پاس ’’تگڑی‘‘سفارشیں بھی موجود تھیں، حیران کن طور پر کچھ شخصیات کو نئی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئی ہیں۔
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر پی سی بی ذرائع نے کہا کہ یہ کیس سابق انتظامیہ کے دور کا ہے، ہم نے دستیاب شواہد کی بنا پر ہی کارروائی کی،ہمیں کسی اور کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔