بائیو ببل کی زندگی سے کرکٹرز ذہنی دباؤ کا شکارہونے لگے جب کہ آل راؤنڈر محمد حفیظ نے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ میچز تو ایک ماہ بعد ہوتے مگر پلیئرز کو اس سے قبل ہی بند ہو کر اس ماحول میں زندگی گزارنا پڑتی ہے، میں خود 5 ماہ سے اپنی فیملی کو وقت نہیں دے پا رہا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pkکے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے محمد حفیظ نے کہاکہ کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال میں بائیو سیکیور ببل میں رہنے کی وجہ سے کھلاڑیوں میں ذہنی دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، کرکٹ تو ایک ماہ بعد ہوتی ہے پلیئرز کو اس سے قبل ہی بند ہو کر اس ماحول میں زندگی گزارنا پڑتی ہے، میں خود 5 ماہ سے اپنی فیملی کو وقت نہیں دے پا رہا، اچھی بات یہ ہے کہ ہم کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن اس کے لیے قربانی بھی دینا پڑتی ہے کہ نارمل زندگی نہیں گزار سکتے۔
انھوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ میں بھی 14 روز کا قرنطینہ کرنا پڑے گا، انگلینڈ میں حالات مختلف تھے لیکن کیویز کے دیس میں قرنطینہ مکمل کرنے کے بعد ہم نارمل انداز میں گھوم پھر سکیں گے، میں نیوزی لینڈ کے ٹور سے ہمیشہ لطف اندوز ہوا ہوں، میری اپنی کارکردگی بھی وہاں اچھی رہی،امید ہے کہ ٹیم اس بار بہتر پرفارم کرنے میں کامیاب ہوگی۔
محمد حفیظ نے کہا کہ میں تینوں فارمیٹ کا کپتان مقرر کیے جانے پر بابر اعظم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، ان کی بیٹنگ مضبوط اور تکنیک شاندار ہے، وہ میچ کی صورتحال کو خود پر حاوی نہیں کرتے، مجھے نہیں لگتا کہ کپتانی کے دباؤ سے ان کی کارکردگی متاثر ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ صرف ٹاس کرنے والا کپتان نہیں ہونا چاہیے جس کی اپنی کوئی کارکردگی ہی نہ ہو،ٹیم جیت بھی جائے تو لوگ پوچھیں کہ تمہاری اپنی پرفارمنس کیا رہی، بابر اعظم قیادت کا حق ادا کرنے والا کھلاڑی ہے، پرفارمنس سے اس کی عزت میں کمی نہیں آئے گی، درست فیصلوں کے لیے اعتماد بھی حاصل ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان سے ملاقات اور مصباح الحق و اظہر علی کی بورڈ کی جانب سے سرزنش کے سوال پر انھوں نے کہا کہ ہم تینوں نے مل کر اپنے ساتھ کھیلنے والے بے روزگار کرکٹرز اور معاون اسٹاف کے حق میں بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، انہی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کر میں محمد حفیظ بنا ہوں،میں نے خود غربت دیکھی ہے، اگر مجھے اس وقت مالی مدد حاصل نہ ہوتی تو آج انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیل رہا ہوتا، جب بھی 70 فیصد بے روزگار کرکٹرز کی مشکلات کی بات کی تو بورڈ کا موقف تھا کہ اس معاملے میں وزیراعظم ہی کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں، اسی لیے ان سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔
حفیظ نے کہا کہ ان کا اب بھی یہ کہنا ہے کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا فلاحی ریاستیں ہیں، ہم ان ملکوں جیسا تو بننا چاہتے ہیں لیکن اپنے زمینی حقائق نہیں دیکھتے، پہلے چند سال میں متبادل تلاش کرتے، اس دوران کھلاڑیوں کے معاشی مسائل نہ ہوتے اور ان کو آگے بڑھنے کے مواقع بھی ملتے رہتے تو بہتر ہوتا،وزیراعظم سے اپنے دل کی بات کہی، انھوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے بعد باوجود ہمیں وقت دیا اس کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں، بہرحال ہمیں جلد سے جلد کرکٹرز اور معاون اسٹاف کے لیے کوئی متبادل پروگرام دینا چاہیے تاکہ مالی مسائل بھی نہ ہوں اور یہ سب لوگ کرکٹ سے جڑے بھی رہیں۔