ندیم عمر کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل بائیوسیکیورٹی کی ناکامی میں فرنچائز صرف 10فیصد قصوروار ہیں جب کہ بورڈ ایس اوپیز پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری پوری نہیں کرسکا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pkکے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میں گفتگوکرتے ہوئے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر نے کہاکہ پی ایس ایل ملتوی ہونے پر بلیم گیم شروع کیا تو یہ کبھی نہیں رکے گا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں، بائیو سیکیورٹی میں ناکامی پر فرنچائزز کو صرف 10فیصد قصوروارقرار دیا جاسکتا ہے، وہ بھی اس لیے کہ پی سی بی نے ہم پر کوئی قانون لاگو نہیں کیے،اس کی حیثیت منتظم جیسی تھی۔
ندیم عمر نے کہا کہ ایس اوپیز پر عمل درآمد کرانا اسی کی ذمہ داری تھی جس میں وہ ناکام ہوا،سری لنکن اور ٹی ٹین لیگز سمیت ایونٹس ہوئے ہیں،ان کے دوران بائیوسیکیورٹی کیلیے انتظامات میں کسی کی مداخلت نہیں تھی، ہوٹل، وہاں کام کرنے والا عملہ، کیمرہ مین، کمنٹیٹر،براڈ کاسٹر سب بائیوببل میں ہوتے، بہرحال اب ہم سب کو غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ غیر ملکی کمپنی کی خدمات حاصل کرنا خوش آئند ہے مگر فرنچائزز اور کھلاڑیوں سمیت سب کو ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کوئی کیس آ جائے تو کس طرح صورتحال کو کنٹرول کرنا ہے، اب 2 شیڈول زیر غور ہیں،پلان ہے کہ کھلاڑی اور معاون اسٹاف ارکان 23یا 24مئی کو رپورٹ کرکے 6یا 7دن کا قرنطینہ مکمل کریں اور 18دن میں ایونٹ کے باقی میچز مکمل ہوجائیں۔
غیر ملکی کرکٹرز کی دستیابی کے سوال پر انھوں نے کہا کہ فرنچائزز اور پی سی بی رابطے میں ہیں، کھلاڑیوں کو بھی کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر معمولی حالات کا اندازہ ہے،1یا2 کو تحفظات ہوسکتے ہیں، پوری امید ہے کہ جن پلیئرز کی قومی ٹیم کیلیے مصروفیات نہ ہوئیں وہ پی ایس ایل میں شرکت کیلیے آئیں گے۔
نئے فنانشل ماڈل پر ڈیڈلاک کے حوالے سے سوال پر ندیم عمر نے کہا کہ فرنچائزز نے اپنی ٹیموں پر بہت زیادہ وقت اور سرمایہ خرچ کیا ہے،یہ کیسا ماڈل ہے کہ جس میں ایک فریق مزے میں ہے اور دوسرا مشکلات کا شکار ہے، پی سی بی کے دلائل سمجھ میں نہیں آتے،اس کو اپنا حصہ کم کرنا ہوگا، کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل تلاش نہ کیا جا سکے،پہلے توکئی ماہ تک مسائل پر بات تک نہیں ہوتی تھی،اب چیئرمین احسان مانی سے باقاعدہ میٹنگز ہوتی ہیں،امید ہے کہ کوئی فارمولا طے ہوجائے گا۔