پاکستان کو آخری اوور میں 31 رنز درکار تھے،گوکہ بظاہر فتح کا امکان کم لگتا تھا مگر 192 پر ناقابل شکست فخرزمان کی ہٹنگ سے بازی پلٹ بھی سکتی تھی، شائقین کو ان کی ڈبل سنچری کا بھی انتظار تھا،سب دل تھامے بیٹھے تھے کہ فخر شاٹ کھیل کر رن لینے دوڑ پڑے، وہ دوسرا رن مکمل کرنے والے تھے کہ نظر جنوبی افریقہ وکٹ کیپر ڈی کک پر پڑی۔
انھوں نے کچھ ایسا اشارہ دیا جیسے تھرو بولنگ اینڈ کی طرف آ رہی ہے، فخر ریلیکس ہوئے توجہ منتشر ہوئی اور گیند وکٹوں پر جا لگی،یوں ایک شاندار اننگز کا اختتام ہوگیا، آج کل شائقین کرکٹ بہت ہوشیار ہیں، انھوں نے وکٹ کیپر کی بے ایمانی بھانپ لی اور سوشل میڈیا پرطوفان برپا ہوگیا، اگر کرکٹ کے قوانین کا درست اطلاق ہوتا تو پاکستان کو 7رنز مل جاتے،افسوس امپائرز سے چوک ہو گئی اور ہماری ٹیم مینجمنٹ کوبھی کچھ علم نہ تھا۔
منیجر منصور رانا کو ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ ذاکر خان سے قربت کی وجہ سے نوازا جاتا ہے، ماضی میں دونوں ایک ہی ڈپارٹمنٹ کی نمائندگی کرتے رہے، پاکستان کرکٹ میں قابلیت سے زیادہ دوستی اہمیت رکھتی ہے، آپ ہائی پرفارمنس سینٹر کے کوچز یا دیگر آفیشلز کو دیکھ لیں سب کا کہیں نہ کہیں ڈاکخانہ مل ہی رہا ہوگا،آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ جب کبھی امپائر کوئی سنگین غلطی کرے تو اسی وقت ٹیم کا کوچ یا منیجر ریفری سے جا کر بحث کرتا ہے۔
شاید ہماری ٹیم مینجمنٹ کو یہ قانون ہی نہیں پتا تھا کہ اگر کوئی جان بوجھ کر کسی بیٹسمین کی توجہ بٹا دے تو بیٹنگ سائیڈ کو 5رنز دیے جائیں گے اور گیند بھی دوبارہ کرانا پڑے گی، بعد میں شاید پاکستان سے کسی نے فون کرکے انھیں بتایا تو منصوررانا ریفری کے پاس گئے،کمیونی کیشن کے بھی مسائل ہوتے ہیں، فخر ڈبل سنچری کے حقدار تھے شاید اگر ہماری ٹیم مینجمنٹ اس وقت میدان میں جا کر امپائر سے بات کرتی اور قانون یاد دلاتی تو فیصلہ تبدیل ہوجاتا،خیر اب تو کچھ فائدہ نہیں ہونے والا، ڈی کک کی تحریری شکایت بھی نہیں ہوئی۔
واقعے کو 24گھنٹے گذر چکے لہذا اب انھیں کوئی سزا نہیں ملے گی، یہ ہماری کمزوری ہے، ہم اپنے خلاف ایسی حرکات درگزر کر دیتے ہیں مگر ہمارا کوئی کھلاڑی کچھ کرے تو فوراً پابندی کی زد میں آ جاتا ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ اگر رضوان نے ایسا کیا ہوتا تو اب تک ان پر 1،2 میچز کی پابندی لگا کر بے ایمان بھی ڈیکلیئر کیا جا چکا ہوتا مگر ڈی کک کی حمایت میں ان کا کپتان اورساتھی کھلاڑی سب کھڑے ہو گئے، کرکٹ کو جنٹلمین گیم کہا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں رہا۔
متواتر گیم اسپرٹ کے منافی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں، پلیئرز ہر حال میں جیتنا چاہتے ہیں جس کے لیے انھیں کوئی بھی حربہ اختیار کرنے میں دشواری نہیں ہوتی،پاکستان میچ تو ہار گیا مگر بلاشبہ فخر زمان نے ون ڈے تاریخ کی بہترین اننگز میں سے ایک کھیلی، ان کی صلاحیتوں پر کسی کو شبہ نہیں لیکن اس کے باوجود ان اور آؤٹ کا سلسلہ لگا رہتا ہے،فخر نے جب زمبابوے کیخلاف ڈبل سنچری بنائی تو کہا گیا کہ بچوں سے میچ میں ایسا کیا ہے، اب تو انھوں نے جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ٹیم کیخلاف اس کے ہوم گراؤنڈ پر ورلڈکلاس بولنگ کی دھجیاں اڑا دیں، مخالفین اس پرکیا کہیں گے؟
اگر کوئی ایک بیٹسمین بھی فخر زمان کا ساتھ دیتا تو ہم یہ میچ جیت سکتے تھے، اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہوگی کہ ایک بیٹسمین نے 193رنز بنائے اور دوسرا بڑا اسکور31 رہا،پاکستانی ٹیم کو بیٹنگ میں بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے، بابر اعظم پر مکمل انحصار سے نقصان ہونے لگا ہے، سب کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا، آصف علی کو ڈان بریڈ مین سمجھ کر ٹیم میں لیا جاتا ہے مگر وہ پاکستان کیلیے 46میچز کھیل کر بھی خود کو نہیں منوا سکے۔
پہلے افتخار احمد کو بھی ایسے مواقع دیے گئے تھے، اس سے تو اچھا تھا کہ آپ جنوبی افریقہ میں ہی موجود ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ کے رکن محمد حفیظ کوہی ون ڈے میچز میں کھلا لیتے، یا سرفراز احمد کو بطور بیٹسمین آزما لیا جاتا، ڈومیسٹک کرکٹ میں خوب رنز بنانے والے دانش عزیز کو پروٹیز پیسر نورکیا نے بیحد پریشان کیا، پی سی بی دعوے تو بڑے کرتا ہے کہ ہم نے سارا ڈومیسٹک سسٹم بدل دیا مگر حقیقت برعکس ہے، اب بھی پہلے کی طرح کی پچز وغیرہ ہیں۔
ملک میں رنز کے ڈھیر لگانے والے بیٹسمین باہر شارٹ پچ گیندوں پر چکرا جاتے ہیں،ہمیں ایسا سسٹم بنانا ہوگا جہاں پلیئرز کو ہر قسم کی پچز پر کھیلنے کا موقع ملے تاکہ دیارغیر میں جدوجہد کرتے دکھائی نہ دیں،دانش کو اگر تیسرے میچ میں موقع ملا تو پرفارم کرنا ہوگا ورنہ وہ بھولی بسری داستان بن جائیں گے، فاسٹ بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی اور محمد حسنین اب تک توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ہیں، فہیم اشرف کی کارکردگی بھی زیادہ خاص نہیں، البتہ حارث رؤف نے بہتر پرفارم کیا، اسپنر شاداب خان کامیاب ثابت نہیں ہو سکے اور انجری کے سبب سیریز سے باہر ہو چکے ہیں۔
اب عثمان قادر کو چانس ملا تودیکھتے ہیں وہ کیسا پرفارم کرتے ہیں، بیٹنگ لائن کی غیریقینی کا عملی مظاہرہ تو پہلے ون ڈے میں ہی دیکھا جا چکا تھا جب آسانی سے جیتنے والا میچ آخری گیند تک پہنچ گیا، دوسرے میچ میں فخر زمان نے عزت رکھ لی مگر اب فیصلہ کن ون ڈے میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،جنوبی افریقہ کے کئی اہم کرکٹرز آئی پی ایل میں شرکت کیلیے بھارت چلے گئے، ان کی ٹیم کو ہوم گراؤنڈزپر ہرانے کا اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا، البتہ اکثر یہ بھی دیکھاگیاکہ کمزور حریف کیخلاف ہماری ٹیم مشکلات میں گھر جاتی ہے۔
امید ہے اس بار ایسا نہیں ہوگا،پلیئرز یہی سوچ کر کھیلیں کہ مضبوط ترین پروٹیز سے مقابلہ ہوگا ایسے میں کامیابی کا امکان زیادہ بڑھ سکتا ہے،بابر اعظم نے پہلے میچ میں سنچری سے ثابت کر دکھایا کہ کپتانی کا ان کی بیٹنگ پر اثر نہیں پڑا ہے، وہ تاریخ رقم کر سکتے ہیں،اگر جنوبی افریقہ کو اس کے ملک میں ہرا دیا تو یہ بطور کپتان ان کے کیریئر کا اہم سنگ میل ثابت ہوگا، امید ہے ٹیم شائقین کو مایوس نہیں کرے گی۔