7 ماہ پہلے کی بات ہے، نیشنل اسٹیڈیم میں کراچی کنگز کے کھلاڑی بیحد خوش تھے، اونرز اور دیگر شخصیات کے چہروں سے بھی مسرت عیاں تھی، ٹرافی تھامے سب نعرے لگا رہے تھے،کراچی میں کراچی کنگز کی ٹیم پی ایس ایل چیمپئن بن گئی اس سے بڑی کیا بات ہو سکتی تھی۔
لاہور قلندرز سے فائنل میں جب 135 رنز کا آسان ہدف ملا تو عماد وسیم کو کوئی فکر نہ تھی کیونکہ بابر اعظم جیسا بیٹسمین جو موجود تھا، اوپنر نے بھی اپنے کپتان کو مایوس نہ کیا اور ناقابل شکست63 رنز بنا کر ٹیم کو5 وکٹ سے فتح دلا دی۔
وہ میچ اور ایونٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے، فائنل میں معمولی ٹارگٹ تک پہنچنے میں بھی بابر اور عماد کے سوا دیگر منجھے ہوئے بیٹسمین آؤٹ ہو چکے تھے لیکن چونکہ اسکورکم تھا اس لیے بیٹنگ لائن کی خامی پر پردہ پڑ گیا، مگر ہر بار ایسا نہیں ہوتا،گذشتہ برس ٹیم فائنل تک پہنچ گئی تھی اور پھر قلندرز نے پچ کو نہ سمجھنے کی سنگین غلطی کرتے ہوئے ٹاس جیت کر بیٹنگ کر لی جس سے کنگز کو سر پر تاج سجانے کا موقع مل گیا، اس سال قسمت نے پہلے ہی ساتھ چھوڑ دیا اور کراچی کی ٹیم فائنل سے پہلے ہی فارغ ہوگئی۔
وہ تو اگلے مرحلے میں رسائی پر بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکی ٹیم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جوآخری میچ ہار کر لاہور قلندرزکو بھی واپسی کا پروانہ تھما گئی،کرکٹ کوئی ایسا کھیل نہیں جس میں کوئی ایک کھلاڑی ہی میچ جتوا دے،اس میں پوری ٹیم کو پرفارم کرنا ہوتا ہے، بولر جتنی ہی اچھی بولنگ کرے اگر فیلڈرز ساتھ نہ دیں تو وہ وکٹیں کیسے لے گا؟
ہر بار بولڈ اور ایل بی ڈبلیو تو نہیں کر سکتا،اسی طرح بیٹسمین جتنی بھی اچھی فارم میں ہو دوسرے اینڈ سے سپورٹ ملنا ضروری ہے،کراچی کنگز کو شاید ایسا لگنے لگا کہ بابر اعظم اکیلا میچ جتواتا رہے گا، سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ تینوں طرز کی کرکٹ کے قومی کپتان فرنچائز کیلیے بطور عام کھلاڑی کھیلتے ہیں۔
عماد وسیم کی قیادت میں کنگز نے گذشتہ برس ٹائٹل جیتا مگر ان کی فارم اوسط درجے کی ہے، کپتان جب خود پرفارم نہ کرے تواس سے مسائل ہوتے ہیں، کئی بار یہ بات ثابت بھی ہوچکی، بابر نے خود سے وابستہ توقعات پر پورا اترتے ہوئے ایونٹ میں سب سے زیادہ 554 رنز بھی بنائے،11 میں سے 7 میچز میں ان کا اسکور 50پلس رہا اور کسی کو کیا چاہیے، لوگ اسٹرائیک ریٹ کی بات کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ انھیں بیٹنگ لائن کو دیکھتے ہوئے بعض اوقات احتیاط سے کھیلنا پڑتا ہے،اگر وہ بھی اونچا شاٹ کھیل کر ابتدا میں وکٹ گنوا دیں تو ٹیم کا اور برا حال ہو۔
شرجیل خان کو فکسنگ کیس میں سزا پانے کے بعد دوسرا موقع ملا، ’’چاہنے والوں‘‘ نے انھیں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر قومی ٹیم میں بھی شامل کرا دیا، مگر ان کے بارے میں کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ پرفارم کریں گے یا نہیں،وہ1،2 چھکے، چوکے لگا کر عموماً رخصت ہو جاتے ہیں، مگر سوشل میڈیا پر شور مچ جاتا ہے کہ واہ کیا زبردست بیٹسمین ہے۔
اس بار شرجیل نے اپنی ٹیم کے دوسرے ہی میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کیخلاف سنچری بنائی البتہ بدقسمتی سے کنگز کو شکست ہو گئی، اس کے بعد اوپنر اپنی اس کارکردگی کو نہ دہرا سکے،بقیہ 9 میچز میں انھوں نے صرف ایک ہی ففٹی بنائی، اس دوران 25کی اوسط سے233رنز اسکور کیے، اوپننگ بیٹسمین کے پاس پورے اوورز موجود ہوتے ہیں، وہ آرام سے بڑی اننگز کھیل سکتا ہے مگر شرجیل ایسا نہ کر پائے،کراچی میں منعقدہ میچز میں محمد نبی کی کارکردگی اچھی تھی مگر ابوظبی میں وہ دستیاب نہ رہے جس کا ٹیم کو نقصان ہوا۔
سب سے زیادہ مایوس مارٹن گپٹل نے کیا، نیوزی لینڈ کیلیے انٹرنیشنل کرکٹ میں 12 ہزار سے زائد رنز بنانے والے بیٹسمین پی ایس ایل کی6 اننگز میں 11 کی ایوریج سے 69 رنز ہی بنا سکے،اگر 43 کی ایک اننگز ہٹا دیں تو5میچز میں 5.20 کی اوسط سے ان کا اسکور محض 26 رہا، اوپنر کوکراچی کنگز میں بابر اور شرجیل کی وجہ سے ون ڈاؤن پوزیشن پر کھلایا گیا، شاید ناکامی کی یہ وجہ رہی یا ابوظبی کی گرمی سے مشکلات ہوئیں،عماد وسیم نے بطور بیٹسمین 11 میچز میں 13 کی اوسط سے 68 رنز بنائے، دانش عزیز کو کم مواقع ملے مگر اس دوران وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کیخلاف صرف 13 بالز پر 45 رنز کی فتح گر اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے، بیٹنگ میں صرف بابر پر ہی انحصار رہا، ایک اکیلا بیٹسمین کیا کر سکتا تھا۔ اگر بولنگ کا ذکر کریں تو ٹیم کو محمد عامر سے بہت زیادہ توقعات تھیں۔
وسیم اکرم جیسے عظیم سابق فاسٹ بولر بطور صدر ساتھ تھے، ایسے میں لگتا تھا کہ شاید بولرز زبردست پرفارم کریں مگر ایسا نہ ہو سکا، عامر نے11 میچز میں تقریباً70 کی اوسط سے5 وکٹیں لیں، اب وسیم خان کیا عمران خان بھی ان کے گھر جا کر چائے پی لیں تو وہ قومی ٹیم میں فوری طور پر واپس نہیں آ سکتے،پیر کو زلمی کے خلاف جب عامر نے شعیب ملک کو آؤٹ کیا تو6 میچز بعد انھیں وکٹ لینے کی خوشی نصیب ہوئی۔
عامر کا رویہ ایسا ہے جیسے وہ وسیم اکرم یا وقار یونس کے جیسے بولر ہوں مگر کارکردگی صفر ہے،جب آپ کا اہم ترین بولر کچھ نہ کر سکے تو کنگز بھی روڈ پر آ سکتے ہیں، عماد نے بھی 34 کی اوسط سے 7 وکٹیں لیں، چند میچز میں بعض بولرز نے بہتر کھیل پیش کیا لیکن کسی کی مجموعی کارکردگی غیرمعمولی نہ رہی، فیلڈنگ کا جو حال رہا وہ سب کے سامنے ہے جب آپ کسی میچ کے آخری اوور میں 2 کیچز چھوڑ دیں تو جیتنے کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں۔
نام کے ساتھ کنگز کیا لگا پلیئرز خود کوکنگ ہی سمجھنے لگے، ٹی وی پرشور شرابا اور معروف شخصیات کو اسٹیڈیم لا کر کوئی ٹورنامنٹ نہیں جیتا جاتااس کیلیے پرفارم کرنا پڑتا ہے،کنگز کو یہ بات سمجھنا ہوگی، پی سی بی تو ڈر جاتا ہے مگر حریف پلیئرز پر کسی کے اثرورسوخ کاکوئی فرق نہیں پڑتا،کراچی کنگز کیلیے اچھی ٹیم بنانا ضروری ہے۔
وسیم اکرم، ہرشل گبز، شرجیل خان، محمد عامر ماشا اللہ سب ایک ٹیم میں موجود ہیں، البتہ فتح کیلیے صرف ان کا ہونا کافی نہیں پرفارمنس ضروری ہے، بس یہ سوچیں کہ اگر بابر چلا گیا تو ٹیم کا کیا ہوگا، بڑے بڑے بادشاہوں کا اب کوئی نام نہیں لیتا تو کنگز تو ایک کرکٹ ٹیم ہے،امید ہے غلطیوں سے سبق سیکھ کر اگلے سال بہتر پرفارمنس سامنے آئے گی۔