رمیز راجہ نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان ٹیم کی حکمت عملی پر سوالات اٹھا دیے۔
سابق کپتان رمیز راجہ نے کہا ہے کہ پہلے بیٹنگ کی صورت میں پاکستان ٹیم کو میچ پر گرفت مضبوط کرنے میں مدد ملتی،بولنگ کرتے ہوئے ہدف کا اندازہ اور فیلڈرز میں بھی زیادہ جذبہ ہوتا ہے،اسی لیے جیت کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں،انگلش ٹیم ہوم گراؤنڈ پر کھیل رہی ہے، سیریز داؤ پر لگی ہوئی تھی،ان کی جانب سے کم بیک متوقع تھا۔
انہوں نے کہا کہ میزبان سائیڈ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے 2لیگ اسپنرز کو میدان میں اتارا، دوسری جانب اس رجحان کو متعارف کرانے والے پاکستان نے ہی ایسی ضرورت محسوس نہیں کی، عثمان قادر موجود تھے مگر ان کو موقع نہیں دیا گیا۔
رمیز راجہ نے کہا کہ انگلش ٹیم میں شامل چند ناتجربہ کار بیٹسمین اسپن کا سامنا اچھے انداز میں نہیں کرتے لیکن گرین شرٹس نے ان کیخلاف جارحانہ انداز اختیار نہیں کیا،اگر ٹاپ بولرز 50سے زائد رنز دیں تو حریف ٹیم بڑا اسکور کیوں نہیں بنائے گی؟
انھوں نے کہا کہ حکمت عملی درست نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اکثر اپنے ٹیلنٹ کا فائدہ نہیں اٹھا پاتا،فیلڈنگ کی وجہ سے بھی حریف کو زیادہ رنز بنانے کا موقع ملا، ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے مڈل آرڈر نے خود اپنے لیے مشکل صورتحال پیدا کی،آنکھیں بند کرکے اسٹروکس نہیں کھیلے جاتے، گیند کو درست ایریا میں ہٹ لگانا ضروری ہوتا ہے۔
سابق کپتان انضمام الحق نے کہا کہ پاکستان نے بیٹنگ آرڈر کے معاملے میں بھی غلطیاں کیں،فخرزمان اوپنر ہیں، انھیں تیسرے نمبر پر آنا چاہیے تھا، دائیں اور بائیں ہاتھ کے بیٹسمینوں کی جوڑی سے انگلش بولرز کو مشکل پیش آتی مگر صہیب مقصود کو بھیج دیا گیا، پانچویں نمبر پر فخر کو اسپنرز کا سامناکرنا پڑا جس کی وجہ سے پرفارم نہیں کرسکے، لوئر آرڈر میں کھلایا جاتا رہا تو ضائع ہوجائیں گے۔
سابق کپتان نے کہا کہ 200رنز بنوا دینے والی بولنگ کو اچھا نہیں کہا جا سکتا۔