قومی ٹیم کے سابق کھلاڑی اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیئرمین رمیز راجہ نے ٹیم کے تھنک ٹینک کے اندر اسٹرائیک ریٹ کے فوبیا کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے، جس کا اثر حال ہی میں ختم ہونے والی پانچ میچوں کی ٹی ٹونٹی سیریز میں نیوزی لینڈ کے خلاف گرین شرٹس کی 4-1 سے مایوس کن کارکردگی کے بعد سامنے آیا ہے۔
رمیز راجہ نے اپنے یوٹیوب چینل پر اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ خدشہ خاص طور پر ٹیم کو دستیاب محدود آپشنز کی وجہ سے نجانے کس بنیاد پر جڑ پکڑ رہا ہے۔،،
انہوں نے ٹیم میں نئے کھلاڑیوں کی اہمیت پر زور دیا کہ وہ اپنے اسٹرائیک ریٹ کو بڑھانے کے لیے اپنے آپ کو موقع دینے اور نسبتاً خطرے سے پاک بیٹنگ کا انداز تیار کرنے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ رمیز راجا نے کہا کہ "اسٹرائیک ریٹ کا فوبیا جس نے اس ٹیم کے تھنک ٹینک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہ کچھ ہے جو مجھے سمجھ نہیں آرہا کیونکہ یہ میرے لئے واضح نہیں ہے کہ انہوں نے اسٹرائیک ریٹ کا یہ خوف کس بنیاد پر پیدا کیا ہے جب کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے پاس آپشنز محدود ہیں، نئے کھلاڑی یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں اپنے اسٹرائیک ریٹ کو بہتر بنانے کے لیے خود کو موقع دینے اور کسی حد تک خطرے سے پاک بیٹنگ کا انداز تیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اچھی ٹیمیں آپ پر دباؤ ڈالیں گی اور آپ کو آؤٹ کریں گی۔"
کھیل کے کسی بھی فارمیٹ میں شراکت داری کے بنیادی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے سابق کرکٹر نے اس بات پر زور دیا کہ صورتحال پر غور کرتے ہوئے ہوشیاری سے کھیلنا اور اس کا اندازہ لگانا کھلاڑی کی ترقی کے لیے اہم پہلو ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "پارٹنر شپ ایک بنیادی پہلو ہے، چاہے یہ کھیل کا کوئی بھی فارمیٹ ہو، وہ ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ پارٹنر شپ کا فائدہ یہ ہے کہ ہوشیاری سے کھیلا جائے، صورتحال کو مدنظر رکھا جائے اور اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ کھلاڑی کیسے بنتے ہیں۔ ایک طرح سے اس سرکٹ گیم میں آگاہی کی ضرورت ہے اور آپ کو یہ سمجھنے کے لیے اپنی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے کہ آپ کیا کر سکتے ہیں یا اس سچویشن میں آپ کیا نہیں کرسکتے۔،،
سابق کرکٹر نے صائم ایوب کی کوششوں کی تعریف کی لیکن اعتماد کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اعظم خان کے کردار پر بھی سوال اٹھایا جو میچ کی صورتحال کو سمجھے بغیر ایک دم سے جارحانہ ہٹنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رمیز راجا نے کہا کہ "صائم ایوب آپ کے سامنے ایک بہترین مثال ہیں جہاں انہوں نے اس مرحلے میں ٹیک آف کرنے کی کوشش کی جہاں وہ اسکور نہیں کرپارہے تھے، انہوں نے کھیل کو تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن پھر ان کا اعتماد ٹوٹ گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا اعظم خان صرف مڈل آرڈر میں چھکے لگا رہا ہے یا اسے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بیٹنگ کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر رہے ہیں۔"