’’کیوں بھئی شین واٹسن نہیں آ رہا ناں، میں نے تو تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وہ نہیں آئے گا،ویسے اس کی ذمہ داری کسی حد تک تم پر بھی آتی ہے کیا ضرورت تھی پاکستان کا مہنگا ترین کوچ والی خبر دینے کی، یار پہلے اسے آنے تو دیتے، اب کسے کوچ بنائیں گے محمد وسیم یا عبدالرحمان کو؟‘‘
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پی ایس ایل 9 کے ایک میچ کے دوران جب ایک ’’بڑے صاحب‘‘ نے مجھ سے یہ کہا تو میں نے انھیں جواب دیا کہ سر آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا واٹسن ساڑھے چار کروڑ روپے ماہانہ تنخواہ کے حقدار تھے، یہ سن کر انھوں نے کہا کہ ’’آپس کی بات ہے، نہیں‘‘ اور پھر یہ کہہ کر چلے گئے۔ واضح رہے کہ شین واٹسن کی خبر ’’ایکسپریس نیوز‘‘ لاہور کے رپورٹر محمد یوسف انجم نے بریک کی تھی۔
سابق آسٹریلوی آل راؤنڈر سے مذاکرات وہاب ریاض اور سلمان نصیر کر رہے تھے، وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ہیڈ کوچ کی حیثیت سے پاکستان آئے، پی سی بی کو نئے کوچ کی تلاش تھی دیگر غیرملکیوں کی طرح ان سے بھی بات ہوئی، پھر واٹسن نے یہ کہہ دیا کہ ’’میں تو مختلف اسائنمنٹس سے سال میں بہت رقم کمالیتا ہوں، فیملی مصروفیات بھی ہیں، شاید پیشکش قبول نہ کر سکوں‘‘ اس پر پی سی بی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ تمام حساب کتاب لگا کر بتائیں کہ سالانہ کتنی رقم سے ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔
شین واٹسن نے شاید جان چھڑانے کے لیے 20 لاکھ ڈالر سالانہ کہہ دیا، پاکستانی کرنسی میں یہ رقم تقریبا 55 کروڑ روپے بنتی ہے، سب کو یہ لگتا تھا کہ اتنا معاوضہ انھیں نہیں ملے گا لیکن نئے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کی یہی خواہش تھی کہ واٹسن کوچ بنیں، انھوں نے متعلقہ افسران سے کہہ دیا کہ ہاں میں جواب دے دو، اب واٹسن تھوڑا سنجیدہ ہوئے اور اہلیہ سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلے کا کہا، ساتھ ہی بورڈ سے پیشکش تحریری طور پر طلب کرلی۔
ایسے میں ان کے معاوضے والی بات سامنے آ گئی اور دنیائے کرکٹ میں طوفان مچ گیا، بھارت سمیت کسی بھی ملک میں کوئی کوچ اتنا معاوضہ نہیں لیتا، سوشل میڈیا پر بھی شور مچا کہ پی سی بی کا خزانہ ایسے خالی کیا جا رہا ہے، اس سے بورڈ بیک فٹ پر آگیا، واٹسن کو پھر کوئی جواب ہی نہ دیا، انھوں نے یاد دہانی کرائی پھر بھی کسی نے رابطہ نہ کیا جس پر وہ واپس چلے گئے،جاتے جاتے انھوں نے پی سی بی کے غیر پیشہ ورانہ رویے پر افسوس کا اظہار کیا، انھیں یہ بھی لگتا تھا کہ بورڈ کی جانب سے جان بوجھ کر خبریں میڈیا کو لیک کی گئی ہیں۔
واٹسن کی اہلیہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ پاکستان جائیں، صرف وائٹ بال کی کوچنگ اور مخصوص دنوں کے لیے دستیابی پی سی بی کے لیے بھی پریشانی کا باعث تھی،یوں بات نہ بن سکی، ویسے ایک طرح سے اچھا ہی ہوا، اتنے خطیر رقم دی جاتی اور کوئی خاص فائدہ ہونا نہیں تھا، ورلڈکپ 2024 کے بعد ٹیم کی وائٹ بال میں اتنی زیادہ مصروفیات بھی نہیں ہیں، سب سے بڑا مسئلہ واٹسن کا رویہ بنتا، ان کا آسٹریلوی انداز قومی کرکٹرز کو نہ بھاتا، آپ سخت رویے کا اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انھوں نے شرفین ردرفورڈ کو آخری میچ کھلانے سے انکار کردیا کیونکہ وہ درمیان میں ٹیم کو چھوڑکرچلے گئے تھے اور پھر بعد میں واپس آئے۔
اس فیصلے کا ٹیم کو نقصان ہی ہوا، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں انھوں نے من مانی کی، ٹیم مالکان نے اس لیے کھلی چھوٹ دی کہ شاید مثبت نتائج سامنے آئیں لیکن ابتدا میں بہتر کارکردگی کے بعد ٹیم پھر پرانے ٹریک پر آ گئی اور پلے آف میں اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، ہر بار سرفراز احمد پر ملبہ گرایا جاتا تھا، اس مرتبہ تو وہ کپتان ہی نہیں تھے بعد میں پلئینگ الیون سے بھی باہر ہوگئے،اب کون ذمہ دار ہے؟
واٹسن نے ٹیم ڈائریکٹر معین خان سے مشاورت کو مناسب نہ سمجھا، حد تو یہ تھی کہ مالکان کو بھی تمام معاملات سے دور رکھا گیا، ایک پرائیوٹ فرنچائز کے لحاظ سے یہ سب کچھ غیرمعمولی تھا، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ آئندہ سال واٹسن دوبارہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ منسلک ہوں گے، جب آپ کسی اہم پوسٹ پر ہوتے ہیں تو انا کو پس پشت رکھنا پڑتا ہے لیکن واٹسن کے ساتھ ایسا نہیں تھا، اس کا پاکستانی ٹیم کو بھی نقصان ہوتا، پی سی بی اب دیگر آپشنز دیکھ رہا ہے لیکن کہیں سے مثبت جواب نہیں ملا، غیرمستقل مزاجی کی وجہ سے پاکستان کی غیرملکی کوچز میں ساکھ بھی اچھی نہیں، انھیں پتا ہے کہ بورڈ میں تبدیلی ہوئی تو فارغ کر دیا جائے گا، اس کا نقصان ٹیم کو ہوگا، نیوزی لینڈ سے سیریز قریب ہے، پھر ٹی 20 ورلڈکپ 2024 بھی ہونا ہے۔
ہیڈ کوچ کے بغیر حکمت عملی کیسے بنے گی، مسئلہ یہ بھی ہے کہ چیئرمین کے پاس ٹائم نہیں، وہ پہلے نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، اب تو وفاقی وزیر داخلہ بن گئےہیں، اتنی اہم پوسٹ کے سامنے کرکٹ کی کیا اہمیت ہوگی، اچھا تو یہی ہے کہ محسن نقوی پی سی بی کوچھوڑ کر ملکی معاملات کو سنبھالیں وہ زیادہ ضروری ہیں، اگر ایسا نہ کیا تو ویسے ہی کرکٹ میں اتنے معاملات تعطل کا شکار ہیں، اس سے پی سی بی کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے، ان کے پاس تو اپنے سینئر اسٹاف تک سے ملاقات کا وقت نہیں ہے، کھلاڑیوں سے بھی الگ میٹنگ نہیں کی، صرف ایک بار سب کوساتھ مدعو کرکے خطاب کیا تھا، وہ کرکٹ بورڈ کو ہلکا لے رہے ہیں، یہ بھی اربوں روپے کا مالک ادارہ ہے،اس کھیل سے لاکھوں پاکستانی محبت کرتے ہیں،اسے ایسے ہی نہیں چھوڑاجاسکتا۔
آپ پی ایس ایل کا حال دیکھ لیں، اس بار ہمارے سب سے اہم کرکٹ ٹورنامنٹ کو کتنے ناقص انداز میں آرگنائز کرایا گیا، قومی ٹیم کے کوچ کا پتا نہیں، کپتان کو تبدیل کرنے کی بھی اطلاعات ہیں، یہ سب فیصلے کب ہوں گے؟
نقوی صاحب کو پی سی بی میں اپنا کمرہ پسند نہیں آیا تھا اور انھوں نے ’’اپنے خرچ پر‘‘ تزئین و آرائش شروع کرائی ہے،میری متعلقہ افسران سے درخواست ہے کہ جلدی کام مکمل کرائیں تاکہ صاحب دفتر میں بیٹھ کر کام شروع کریں اور معاملات درست سمت میں آسکیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)