’’بورڈ نے کسی ذمہ داری کی پیشکش نہیں کی اور نہ ہی دستیاب ہوں‘‘

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈکوچ وقار یونس کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے انہیں کوئی ذمہ داری سنبھالنے کی پیشکش نہیں کی ہے اور نہ ہی وہ کوئی ذمے داری نبھانے کے لیے دستیاب ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو خصوصی انٹرویو میں وقار یونس نے کہا کہ پی سی بی کی جانب سے کوئی ذمہ داری سنبھالنے کیلیے کوئی پیشکش نہیں ہوئی، اگر کی بھی گئی تو میں اس پوزیشن میں نہیں کہ جوائن کرسکوں۔ میں ابھی جو کچھ بھی کررہا ہوں اس پر خوش ہوں،میرے بچے اس عمر میں ہیں کہ مجھے فیملی کو وقت دینے کی ضرورت ہے، تھوڑی بہت کاروباری مصروفیات کے ساتھ کمنٹری کرنا ہی درست ہے ۔مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا،البتہ ابھی کمنٹری میں مصروف رہوں گا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا اچھا آغاز کیا ، سری لنکن ٹیم کو اسی کے ہوم گراؤنڈ پر ہراتنا آسان نہیں ہوتا، کھلاڑیوں نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس پر میں فخر محسوس کرتا ہوں، نوجوان بیٹرز پر مشتمل لائن اپ میں عبداللہ شفیق، سعود شکیل اور سلمان علی آغا پر کارکردگی دکھانے کا دباؤ تھا۔ ان کی اچھی بیٹنگ خوش آئند ہے،اس سے گرین کیپس کے اعتماد میں اضافہ ہوا جو آگے چل کر کارآمد ثابت ہوگا۔وقار یونس نے کہا کہ سری لنکا کیخلاف سیریز میں پاکستانی  فیلڈنگ اور بابر اعظم کی کپتانی میں بہتری نظر آئی، کپتان کے کندھوں پر رنز بنانے کا اضافی بوجھ بھی ہوتا ہے،جونیئرز کی پرفارمنس سے یہ دباؤ کم ہوا اور ان کو فیلڈ میں زیادہ بہتر فیصلے کرنے میں آسانی ہوئی۔
بولنگ، بیٹنگ میں تبدیلیوں اور فیلڈ سیٹنگ اچھی رہی، بولرز سے لمبے اسپیل بھی کروائے، انھوں نے مزید کہا کہ نعمان علی پر دباؤ تھا مگر کپتان نے ان کی صلاحیتوں پر اعتماد برقرار رکھا، اسپنر نے کولمبو ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں شاندار کارکردگی دکھائی،بہتر فیصلوں اور سیریز میں کلین سوئپ سے بابر کا بطور کپتان اعتماد بھی بلند ہوا ہے۔

کھلاڑیوں کو لیگ کرکٹ سے پیسہ کمانے سے نہیں روکا جا سکتا 
وقار یونس نے کہا کہ دنیا بھر میں مختصر فارمیٹ کی بہت زیادہ کرکٹ ہورہی ہے،آپ کھلاڑیوں کو پیسہ کمانے سے نہیں روک سکتے، یہ احساس پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے ملکوں کے کرکٹرز مالی طور پر بہت مستحکم ہوتے جارہے ہیں اور ہم پیچھے رہ گئے۔
بورڈ کو دیکھنا ہوگا کہ اگر پاکستان کی کوئی سیریز آنے والی ہے تو کیا پلیئرز کو روک سکتے ہیں، اگر ایسا کیا ہے تو ان کے نقصان کی کس طرح تلافی ہو ،ایسی پالیسی ہونا چاہیے کہ ملک کا نقصان بھی نہ ہو،اس ضمن میں فریقین کو مل بیٹھ کر کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔
شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو چار روزہ میچز کھیلنے چاہئیں
وقار یونس کا خیال ہے کہ شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کو چار روزہ میچز کھیلنے چاہئیں، شاہین شاہ آفریدی کی سری لنکا میں بولنگ ماضی جیسی نہ ہونے کے سوال پر وقار یونس نے کہا کہ طویل فارمیٹ میں واپسی سے قبل اچھی تیاری ہونی چاہیے۔ 
پیسرزکو ردھم میں آنے کیلیے طویل اسپیل درکار ہوتے ہیں،بولرز ٹی ٹوئنٹی میچز زیادہ کھیلتے اور طویل فارمیٹ کی کرکٹ زیادہ نہیں ملتی تو ٹیسٹ کرکٹ کیلیے مطلوبہ ردھم حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے، نسیم شاہ کی پرفارمنس کے سوال پر سابق کپتان نے کہا کہ ان کی تیاری بھی مکمل نہیں تھی،انگلینڈ سے کھیل کر آنے کے بعد سری لنکن حبس اور گرمی میں پرفارم کرنے کیلیے مطلوبہ فٹنس ہونا چاہیے۔ پیسر نے اچھے اسپیل کیے آخر میں ان کا ردھم بھی واپس آگیا کیونکہ ڈیڑھ ٹیسٹ کھیل چکے تھے،میں اسی لیے کہتا ہوں کہ کسی بھی ٹیسٹ سیریز کی تیاری کیلیے پہلے 4روزہ کرکٹ کھیلنا چاہیے۔ جیمز اینڈرسن کی طرح پاکستانی بولرز کے کیریئرز طویل نہ ہونے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ بیٹرز مصباح الحق، محمد حفیظ اور اظہر علی کے کیریئرز تو زندگی کی چوتھی دہائی تک جاری رہے۔ پیسرز کا فرق یہ ہے کہ ان کو سلو ہوم کنڈیشنز میں زیادہ زور لگانا پڑتا ہے،جس کوکا بورا بال سے ہم کھیلتے ہیں وہ بہت جلد نرم پڑ جاتی اور بولرز کا حوصلہ پست جاتا ہے، وہ زیادہ زور لگائیں تو فٹنس مسائل کا شکار ہوتے ہیں، کرکٹ بورڈ کو خاص طور پر گیند کے معاملے میں فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ 500وکٹیں حاصل کرنے والے کلب کو جوائن کرنے والے پیسرز تیار ہو سکیں۔ 

میچ ونرز موجود ہیں، ٹیم بھارت کے خلاف اچھا پرفارم کرے گی
وقار یونس نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کا میچ ہمیشہ بڑا اور دباؤ سے بھرپورہوتا ہے،اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا آسان نہیں، پریشر بہتر انداز میں برداشت کرنے والی ٹیم سرخرو ہوتی ہے، گذشتہ چند میگا ایونٹس میں پاکستان نے دباؤ کا بہتر انداز میں سامنا کیا ،گرین شرٹس بھارت میں بھی اچھا پرفارم کر چکے ہیں، امید ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔