’’مجھے آرام دیں، میں مسلسل کرکٹ کھیل کر تھک گیا، گھر والوں کو بھی وقت دینا چاہتا ہوں‘‘
محمد عامر اس قسم کی باتیں کافی عرصے سے کررہے ہیں مگر اس کے باوجود ان کو مکمل سیریز کے لیے ریسٹ نہیں دیا جارہا البتہ 1، 2 میچزمیں بٹھا دیا جاتا ہے، عامرکی بے زاری ان کے کھیل سے واضح ہوتی ہے خصوصاً دورئہ برطانیہ کے بعض میچز میں ایسا لگا جیسے انھیں بندوق دکھا کر میدان میں اتارا گیا۔
میری چند روز قبل جب اس حوالے سے چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ’’ کھلاڑی خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اسے آرام کرنا ہے، یہ کوچ، کپتان و سلیکٹرز کی صوابدید ہے، عامر کے حوالے سے بھی مکی آرتھر ہی کوئی قدم اٹھائیں گے‘‘ میں نے اپنے چند باخبردوستوں سے پوچھا تو انھوں نے واضح طور پر بتایا کہ کوچ پیسر کو ریسٹ دینے کے موڈ میں نہیں ہیں، بہت سے لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ عامر کو زمبابوے میں جاری ٹرائنگولر سیریز کے ابتدائی دونوں میچز میں کیوں نہیں کھلایا گیا،اگر کھلانا نہیں تھا تو ساتھ لے کر کیوں گئے؟
میں نے ٹیم مینجمنٹ کے ایک رکن سے پوچھا ’’کیا عامر ان فٹ ہیں تو ان کا جواب نفی میں تھا، میرا اگلا سوال تھا کہ آرام دے رہے ہیں یا ڈراپ کیا، جواب ملا آرام‘‘۔ مکی آرتھر کا مزاج کیسا ہے، آسٹریلوی کھلاڑیوں سے ان کی کیوں نہیں بنی، ان سب باتوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، جب تک نتائج مثبت آ رہے ہیں وہ اچھے انداز سے ہی ذمہ داری نبھا رہے ہوں گے، ٹیم کی کامیابیوں میں ان کا بھی یقیناً اہم کردار ہے، مکی کو سینئرز پسند نہیں کیونکہ وہ اپنے فیصلے کرنے کے عادی ہیں۔
کپتان سرفراز احمد کسی سے محاذ آرائی کرنے والے شخص نہیں، اسی طرح شعیب ملک ایسے انسان ہیں جو سینئر ہونے کے باوجود اپنے اچھے رویے کی وجہ سے سب کے دل میں گھر کر لیتے ہیں، باقی اب وہ وقت نہیں رہا کہ آپ کو نام پر مسلسل کھلایا جائے، خراب رویے والے پلیئرز کو تو مستقل گھر بھیج دیا جاتا ہے جیسا عمر اکمل کے ساتھ ہوا، احمد شہزاد کے بھی ڈراپ ہونے کا وقت آ گیا تھا مگر وہ ڈوپنگ کیس میں پھنس کر خود ہی باہر ہو گئے۔
محمد حفیظ واپس آ تو گئے مگر شاید ان کے بھی ٹیم کے ساتھ آخری دن چل رہے ہیں،کوچ نے اپنا ایک مقصد بنایا ہوا ہے اور وہ ہے ورلڈکپ2019 ، انھوں نے اپنے ذہن میں ایک ٹیم بنا لی اور اسے آئندہ سال تک اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، محمد عامر اس کے اہم رکن ہیں۔
پیسر میڈیا میں بھی آ کر کہہ چکے کہ ’’ وہ کوئی مشین نہیں ہیں انھیں آرام چاہیے‘‘ ایک سے زائد بار انھوں نے چیف سلیکٹر انضمام الحق سے بھی اس بارے میں بات کی کہ نجی مسائل کی وجہ سے کسی سیریز میں باہر بٹھا دیا جائے،مگر آرتھر نے مخالفت کر دی، وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ کوئی کھلاڑی انھیں ڈکٹیٹ کرے، یہ بات سب محسوس کر رہے ہیں کہ عامر اپنی کرکٹ سے لطف اندوز نہیں ہو رہے اور موڈ کے حساب سے بولنگ کرتے ہیں، برطانیہ میں نہ چاہتے ہوئے وہ بعض میچز کھیلے۔
کوچ کا کہنا ہے کہ ’’عامر اور شاداب خان میرے اہم کھلاڑی ہیں میں انھیں نظروں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘‘ انھیں لگتا ہے کہ کھلاڑیوں کو اگر کچھ عرصے کیلیے ٹیم سے الگ کر دیا جائے تو وہ محنت کا سلسلہ چھوڑ دیں گے اور انھیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اسی لیے عامر کو زمبابوے لے جایا گیا مگر ابتدائی دونوں میچز نہ کھلا کر ریسٹ بھی دے دیا،اب ویسے بھی مختصر طرز کی کرکٹ کھیل کر پلیئرز کم وقت میں زیادہ پیسے کما لیتے ہیں، عامر اگر ٹیسٹ نہیں کھیلنا چاہتے تو ان سے بات کریں، اندر ہی اندر پکنے والا لاوا کہیں آتش فشاں نہ بن جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انضمام الحق پیسر کو آرام دینے کے حامی تھے مگر کوچ کے سامنے کچھ نہ کہہ سکے، شاید یہ بات کچھ لوگوں کو پسند نہ آئے مگر تلخ حقیقت ہے کہ چیف سلیکٹر اور مکی آرتھر کے تعلقات مثالی نہیں ہیں، دونوں انا پرست، من مانی کے عادی اور اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں، کسی کی مداخلت انھیںگوارا نہیں، مگر مجبوراً ایک دوسرے کو برداشت کرنا پڑتا ہے، جیسے وہاب ریاض کے ایک قریبی عزیز چیف سلیکٹر کے خاص دوست ہیں، وہ انھیں ٹیم میں واپس لانا چاہتے ہیں مگر کوچ ایسا نہیں ہونے دیتے، آرتھر کے خیال میں وہاب ’’ڈھیلے‘‘ کرکٹر ہیں،انھیں پیسر کی کمٹمنٹ پر بھی شکوک ہیں،اسے لیے وہ باہر ہیں۔
کوچ کے دل سے اترنے والے ایک اور کھلاڑی عماد وسیم بھی ہیں، بظاہر وہ فٹ ہو چکے، لاہور میں ٹیسٹ بھی اچھا ہوا تھا مگر پھر بھی قومی ٹیم میں واپسی سے محروم ہیں، ایک زمانہ تھا جب عماد آرتھر کی آنکھ کا تارا تھے، انھیں کپتان تک بنانے کی باتیں ہو رہیں تھیں مگر اب ایسا نہیں ہے،کوچ کو لگتا ہے کہ آل راؤنڈر اب ماضی کی طرح محنت نہیں کرتے ، انھوں نے اپنی اسپن بولنگ میں بہتری کیلیے بھی کوشش نہیںکی، میں نے ایک بورڈ آفیشل سے پوچھا تو جواب ملا کہ ’’ عماد مکمل فٹ نہیں ہیں، مگر دورئہ زمبابوے کیلیے اسکواڈ میں جگہ نہ بنانے کے بعد سوشل میڈیا میں اچانک عماد وسیم کیلیے شروع ہونے والی مہم یہ واضح کر رہی ہے کہ ’’ کچھ تو گڑبڑ ہے‘‘۔
انھوں نے آخری بار اکتوبر 2017 میں پاکستان ٹیم کی نمائندگی کا اعزاز پایا تھا، رواں برس کے اوائل میں پی ایس ایل تھری کے دوران کراچی کنگز کی قیادت کرتے ہوئے وہ سر کی انجری کا شکار ہوئے،اس دوران ٹی 10 لیگ کے دوران سامنے آنے والی گھٹنے کی تکلیف بھی دوبارہ لوٹ آئی،انھوں نے انگلینڈ میں بھی اس کا علاج کرایا تھا،دیکھتے ہیں عماد کا مستقبل کیا ہوتا ہے مگر انھیں واپسی کیلیے کوچ پر ثابت کرنا ہوگا کہ آف دی فیلڈ سرگرمیوں سے زیادہ توجہ فیلڈ کے معاملات پر دیں گے، ویسے اب گرین شرٹس کے اصل امتحان شروع ہوئے ہیں۔
آسٹریلیا سے ٹی ٹوئنٹی میچ میں کارکردگی لمحہ فکریہ ہے، آگے کینگروز و نیوزی لینڈ اور پھر جنوبی افریقہ سے سیریز بھی ہونی ہیں،اس دوران اگر خدانخواستہ نتائج اچھے نہ آئے تو ’’ بلیم گیم‘‘ شروع ہو سکتا ہے، البتہ اگرفتوحات ملتی رہیں تو کوچ اور چیف سلیکٹردونوں ہی ملنے والے کریڈٹ پر خوش ہوتے رہیں گے، جو بھی ہو پاکستان کرکٹ کیلیے اچھا ہونا چاہیے کیونکہ انضمام، آرتھر یا کوئی مخصوص کھلاڑی نہیں ٹیم سب سے زیادہ اہم ہے۔