اگر ورلڈکپ سوشل میڈیا پر ہو تو پاکستان کے کوئی قریب نہیں پہنچ سکتا، پی سی بی کا اپنا سیل اور اعلانیہ و غیراعلانیہ ترجمان چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی ایسا بنا کر پیش کرتے ہیں جیسے آسمان سے تارے توڑ لائے۔
بدقسمتی سے ہمیں بھی سچ سننے کی عادت نہیں، جو سامنے نظر آ رہا ہو وہ بظاہر اچھا ہے تو کوئی خلاف بات سننا پسند نہیں کرتا، ایسے میں آپ کوئی خامی بیان کریں تو منفی سوچ کے طعنے ملنے لگتے ہیں،پاکستان نے جنوبی افریقہ کیخلاف ون ڈے سیریز جیتی اچھی بات ہے لیکن ہم یہ حقیقت بھول گئے کہ فیصلہ کن میچ میں میزبان ٹیم کے7کھلاڑی موجود نہ تھے،فتح بڑی بڑی خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے اس لیے یہ حقیقت بھی چھپ گئی کہ ہماری مڈل آرڈر بیٹنگ تو بیحد کمزور ہے۔
چیف سلیکٹر محمد وسیم کے چاہنے والوں نے ان کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیے، بورڈ نے بھی اس موقع کو خوب کیش کیا اور کریڈٹ لینے سب سامنے آ گئے،اب ٹی ٹوئنٹی سیریز شروع ہوئی، جنوبی افریقہ کی آدھی ٹیم آئی پی ایل کھیلنے بھارت جا چکی، جو اہم پلیئرز بچے وہ انجرڈ ہو گئے، ایک طرح سے ان کی سی ٹیم سے مقابلہ ہورہا ہے،اس کے باوجود پہلا میچ بمشکل ایک گیند پہلے جیتے۔
اب امید تھی کہ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں پروٹیز کو آسانی سے ہرا دیں گے مگر ’’بچے‘‘ بھی مشکل میں ڈال رہے ہیں، سازگار پچ پر جس طرح ہماری بیٹنگ لائن ناکام ہوئی وہ لمحہ فکریہ ہے، ایک بات واضح ہو گئی کہ بابر اعظم کے بعد ٹیم اب محمد رضوان پر حد سے زیادہ انحصار کرنے لگی ہے،10 اننگز کے بعد وہ ناکام ہوئے تو بیٹنگ سنبھل نہ سکی، رضوان ہمارے مین پرفارمر ہیں، بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ دونوں شعبوں میں وہ مسلسل عمدہ پرفارم کررہے ہیں، مگروہ بھی انسان ہیں اور ہمیشہ کامیاب نہیں رہ سکتے۔
پہلا میچ انھوں نے عمدگی سے فنش کرایا تھا،بدقسمتی سے اس بار پہلی گیند پر آؤٹ ہو گئے، شاید حد سے زیادہ خود اعتمادی اس کی وجہ ہو، بابر اعظم کا یہ انداز نہیں کہ چھکے چوکے لگانا شروع کر دیں وہ سیٹ ہونے میں وقت لیتے ہیں، دوسرے میچ میں گوکہ انھوں نے نصف سنچری بنائی مگر یہ اننگز ان کے شایان شان نہیں تھی، وہ سست کھیلے اورجب جارحانہ شاٹس کھیلنے کا وقت آیا تو وکٹ گنوا بیٹھے، شرجیل خان کو ویسے تو قومی ٹیم میں واپس آنا ہی نہیں چاہیے تھا مگر کرپشن کیخلاف زیرو ٹالیرنس کا فرضی نعرہ لگانے والے کرکٹ بورڈ نے انھیں ایک اور موقع فراہم کر دیا۔
چار سال بعد اپنے پہلے میچ میں ان کی اننگز8 رنز تک ہی محدود رہی، ہو سکتا ہے بقیہ میچز میں وہ پرفارم کر دیں البتہ جو کھلاڑی ایک بار فکسنگ میں پڑ جائے اسے دوبارہ قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع نہیں ملنا چاہیے،مگر پاکستان میں سب چلتا ہے،ان فارم فخرزمان کو ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں شامل کر کے اچھا فیصلہ کیا گیا مگر بدقسمتی سے وہ فٹنس مسائل کا شکار ہو گئے، گذشتہ سیریز میں حصہ نہ لینے والے محمد حفیظ کی کارکردگی میں تھوڑا فرق آیا ہے، البتہ وہ تجربہ کار کرکٹر ہیں امید ہے اگلے میچز میں ابتدائی ناکامیوں کا ازالہ کر دیں گے۔
بدقسمتی سے پاکستانی مڈل آرڈر بیٹنگ ٹی ٹوئنٹی میں بھی مضبوط نہیں لگتی، حیدر علی کے حوالے سے بہت زیادہ ہائپ بنائی گئی ہے مگر وہ ایک، دو اچھے شاٹس کھیل کرہی چلتے بنتے ہیں،12ٹی ٹوئنٹی میں صرف 2 نصف سنچریاں کافی نہیں، انھیں اپنے ٹیلنٹ سے انصاف کرنا ہوگا، فہیم اشرف نے پہلے میچ میں 30قیمتی رنز بنا کر فتح میں اہم کردار اداکیا تھا مگر ان کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان ہے،محمد نواز کی پہلے میچ میں بولنگ اچھی رہی مگر بیٹنگ میں وہ ناکام ثابت ہوئے، دوسرے میں تو دونوں شعبوں میں کچھ نہ کر سکے، لیٹ آرڈر بیٹنگ بھی پاکستانی ٹیم کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
دوسری جانب مسلسل کرکٹ کے اثرات شاہین شاہ آفریدی کی کارکردگی میں نظرآنے لگے ہیں، انھیں آرام نہ کرایا تو یہ نہ ہو کہ فٹنس مسائل میں الجھ جائیں، ٹیم مینجمنٹ کی پالیسی سمجھ سے باہر ہے، بولرز کی کارکردگی میں بھی تسلسل نظر نہیں آ رہا، افسوس اس بات کا ہے کہ ورلڈکپ اب چند ماہ دور ہے اور ہم ٹیم کمبی نیشن ہی تشکیل نہیں دے سکے، ایک کمزور حریف نے6اوورز قبل ہمارے خلاف ہدف حاصل کر لیا اس سے بولرز کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔
کچھ تو فائٹ کرنی چاہیے تھی، میگا ایونٹ بھارت میں ہونا ہے جہاں کی پچز پر رنز کے انبار لگتے ہیں، کم وقت میں کارکردگی کا معیار بڑھانا ہوگا، فی الحال تو ٹیم کی پرفارمنس اتنی غیرمعمولی نہیں ہے کہ چیمپئن بننے کا خواب دیکھا جا سکے،4،5ماہ قبل ہم زمبابوے سے اپنے ہوم گراؤنڈ پر بھی ٹی ٹوئنٹی میچ ہار چکے ہیں، اب جنوبی افریقہ سے وہیں جانا ہے، اسے بھی ترنوالہ نہیں سمجھا جا سکتا۔
دیار غیر میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی برسوں سے اچھی نہیں رہی، جنوبی افریقہ میں 7سال بعد ون ڈے سیریز جیتی، اب ٹی ٹوئنٹی میں بھی اچھا موقع ملا ہے، غیرمعروف میزبان کرکٹرز کو اسٹارز نہ بنائیں خود اسٹارز جیسا کھیل پیش کریں، ابھی ایک ہی میچ ہارے ہیں، بقیہ دونوں جیت کر سیریز اپنے نام کرنا ممکن ہے،یقین مانیے اگر اس پروٹیز ٹیم کو ہم نہ ہرا سکے تو اس سے زیادہ شرم کی بات کوئی نہیں ہوگی۔
بابر اعظم اور ٹیم مینجمنٹ کو جلدی سے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرتے ہوئے وننگ ٹریک پر آنا ہوگا،ہر بار قسمت ساتھ نہیں دیتی کہ آخری گیند پر جیتتے رہیں، ایسی ٹیم کو تو آؤٹ کلاس کرنا چاہیے الٹا ہم خود آؤٹ کلاس ہو رہے ہیں، اب شاندار کھیل پیش کر کے ٹرافی حاصل کریں اور ہاں اس کے بعد محمد وسیم زندہ باد واہ کیا ٹیم سلیکٹ کی، یا احسان مانی، وسیم خان زندہ باد ٹیم کو کیا زبردست بنا دیا، ایسے نعرے نہ لگائیں بلکہ جو خامیاں ہیں انھیں دور کرنے کو ترجیح دیں۔
ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں،اگر درست کمبی نیشن تشکیل دیا تو بڑی بڑی ٹیموں کو ہرانا بھی ممکن ہوگا، اب بھی وقت ہے اچھی ٹیم بنائیں، پھر اصلی نعرے سامنے آئیں گے کسی کو کہنا نہیں پڑے گا۔