بھارت یہ سمجھتا تھا کہ پاکستانی میدان ہمیشہ ویران رہیں گے مگر اسے منہ کی کھانا پڑی
آپ تصور کریں بھارتیوں کی اس وقت کیا حالت ہوگی، وہ کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی آئی پی ایل یو اے ای میں کرانے پر مجبور ہیں جبکہ پاکستان پی ایس ایل کے بعد اب زمبابوے سے بھی سیریز کا انعقاد کرے گا، بھارت یہ سمجھتا تھا کہ پاکستانی میدان ہمیشہ ویران رہیں گے مگر اسے منہ کی کھانا پڑی،پاکستان میں عالمی وبا کی صورتحال بھی کافی حد تک کنٹرول میں ہے۔
زمبابوین ٹیم یہاں پہنچ چکی، حسد میں اندھے بھارت کا کہیں بس نہ چلا تو اس نے کوچ لال چند راجپوت کو ہی دورے سے روک دیا، پہلے ویزے کا شوشہ چھوڑا گیا مگر پاکستان کا یہ ریکارڈ ہے کہ وہ کبھی کھیل میں سیاست کو نہیں لایا، اس لیے راجپوت کو ویزے کا اجرا بھی ہو گیا، ایسے میں بھارت کی جانب سے انھیں نہ جانے دینا افسوسناک ہے،کرکٹ میں سیاست شامل کرنے کی یہ ایک اور واضح مثال ہے، آئی سی سی تو بھارتی بورڈ کے سامنے کچھ نہیں کر سکتی اس لیے خاموش رہتی ہے۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ اگر پاکستان اگلے سال ورلڈکپ کیلیے بھارتی ویزوں کی یقین دہانی چاہتا ہے تو یہ غلط سوچ نہیں ہے، کیا پتا کہ عین وقت پر وہاں سے انکار سامنے آ جائے تب کیا ہوگا؟پہلے تو بھارت خود پاکستان سے باہمی سیریز نہیں کھیلتا تھا اب دوسروں کو بھی پریشان کرنا شروع کر دیا ہے، روانگی سے چند گھنٹوں قبل جب زمبابوے کو پتا چلا کہ کوچ ساتھ نہیں جا سکتے تو ٹیم پر کیا بیتی ہوگی؟ راجپوت اگر پاکستان آتے تو دیگر مہمانوں کی طرح انھیں بھی سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا، وہی سیکیورٹی ملتی جو زمبابوین کرکٹرز کیلیے ہے مگر بھارتی حکومت نے اپنا اصل چہرہ ایک بار پھر دنیا کو دکھا دیا، خیر اس سے سیریز پر اثر نہیں پڑنا چاہیے۔
زمبابوین ٹیم اسلام آباد پہنچ چکی، کورونا کے دنوں میں ملکی میدانوں کا دوبارہ آباد ہونا خوش آئند ہے،پاکستان اپنا اسکواڈ منتخب کر چکا ہے، سلیکشن پر زیادہ بات کرنے سے پہلے میں آپ کو کچھ حقائق بتاتا چلوں،زمبابوین ٹیم نے آخری بار کسی بڑی ٹیم سے ون ڈے یا ٹی20 میں مقابلہ 2 سال قبل کیا تھا جب اسے جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست ہوئی،گذشتہ برس تو نیدرلینڈز اور آئرلینڈ نے بھی اسے مسلسل ہرایا، رواں سال مارچ میں دورئہ بنگلہ دیش کے دوران تینوں ون ڈے میچز میں ناکامی ہاتھ آئی،میزبان ٹیم نے 2 میچز تو100 سے بھی زائد مارجن سے جیتے، دونوں ٹی 20میچز میں بھی شکست ہوئی،اندرونی اختلافات نے زمبابوین کرکٹ کو کھوکھلا کر دیا ہے، پی سی بی اس پر مہربان ہے اور مسلسل سیریز کھیلتے رہتا ہے، ٹیم میں بیشتر غیرمعروف کھلاڑی شامل ہیں۔
ایسے میں آپ کے پاس موقع تھا کہ نئی ٹیم میدان میں اتارتے،اس سے موقع کے منتظرکرکٹرز کو ہوم گراؤنڈ پر انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا تجربہ بھی حاصل ہو جاتا مگر یہاں مصباح کنفیوژن کا شکار نظر آئے، انھوں نے 39سالہ شعیب ملک کو عمر کی وجہ سے ڈراپ کر دیا مگر ان سے ایک سال بڑے محمد حفیظ کو منتخب کر لیا، بلاشبہ حفیظ نے انگلینڈ میں اچھی کارکردگی دکھائی مگر یہی شعیب ملک چند روز قبل قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے فائنل میں بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے، اسی برس بنگلہ دیش کیخلاف انھیں مین آف دی میچ ایوارڈ ملا تھا، زیادہ اچھا تو یہی ہوتا کہ دونوں کو ہی آرام کرا دیتے، افتخار احمد کی کارکردگی سب کے سامنے ہے مگر چونکہ وہ مصباح کے فیورٹ ہیں اس لیے ایک بار پھر منتخب ہو گئے۔
جو کھلاڑی قومی ٹی 20کپ میں آخری اوور اسپنر سے میڈیم پیسر بن کر کرے اور ٹیم ہار جائے اسے تو بطور سزا ہی باہر رکھنا چاہیے تھا، اگر آپ منتخب 22 کھلاڑیوں کا جائزہ لیں تو ان میں سے 8 کی عمر 30 سے زائد ہے، سوائے عبداللہ شفیق کے بیشتر قومی ٹیم کی نمائندگی کر چکے یا سیٹ اپ کا حصہ رہے، روحیل نذیر کا نام دورئہ انگلینڈ کے اسکواڈ میں شامل تھا، حال ہی میں قومی ٹی20کپ ہوا اس میں کئی پلیئرز کی کارکردگی اچھی رہی مگر وہ سلیکٹرز کی توجہ نہ پا سکے، دانش عزیز نے عمدہ بیٹنگ سے تن تنہا سندھ کو2 میچز جتوائے مگر باہر ہی رہے،12وکٹیں لینے والے زاہد محمود کی لیگ اسپن بولنگ نے بھی سب کو متاثر کیا مگرانھیں کوئی لفٹ نہیں کرائی گئی،عثمان قادر اور ظفر گوہر واجبی کارکردگی کے باوجود منتخب ہو گئے۔
اسکواڈ میں چند نوجوان کرکٹرز کے نام تو نظر آ رہے ہیں لیکن اگر کھیلنا سینئرز کو ہی ہے تو انھیں لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اگر آپ نے واضح پالیسی بنائی ہوتی تو شعیب، عامر اور سرفراز کے ساتھ بعض دیگر سینئرز کو بھی آرام دیتے مگر یہاں جو پسند نہیں اسے باہر کر دیا اور جو پسند ہے اسے برقرار رکھا، دیکھتے ہیں کہ جو نوجوان کھلاڑی منتخب ہوئے انھیں کتنے مواقع ملتے ہیں، یہاں مصباح کو ایک ایڈوانٹیج یہ ہے کہ وہ خود ہی ہیڈ کوچ بھی ہیں، پلیئنگ الیون میں عبداللہ اور روحیل وغیرہ کو شامل کریں تو کوئی نہیں پوچھے گا مگر شاید ایسا مشکل سے ہی ہو،مصباح کے ذہن میں یہ خوف بھی ہو گا کہ اگر زمبابوین ٹیم سے ایک بھی میچ ہار گئے تو مشکل ہو جائے گی اس لیے وہ آزمودہ کرکٹرز کو ہی زیادہ مواقع دیں گے،دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے البتہ پی سی بی کا شاداب خان کو نائب کپتان مقرر کرنے کا فیصلہ قابل تعریف ہے، عماد وسیم کے آنے سے ناردرن کی کارکردگی کیسی ہو گئی یہ سب کے سامنے ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ کسی نئے کھلاڑی کو بطور کپتان گروم کیا جائے، شاداب ٹیم مین ہیں، وہ بطور نائب قائد بھی کامیاب ثابت ہوں گے، بابر اعظم کو ان کے آنے سے فائدہ ہی ہوگا۔ جاتے جاتے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کی کچھ بات کر لیں، خیبر پختونخوا نے عمدہ کھیل پیش کرتے ہوئے ٹائٹل جیتا، اگر پی سی بی کی پریس ریلیز کو سچ مانیں تو پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں اتنا اچھا کوئی ڈومیسٹک ایونٹ نہیں ہوا مگر بدقسمتی سے حقائق اس کے برعکس ہیں، ابتدا سے ہی یہ مسائل کا شکار رہا،آغاز پروڈکشن اور گرافکس سے ہوا، پلیئرز اور آفیشلز مسلسل بائیو ببل کی دھجیاں اڑاتے رہے، اتنی سختی کے باوجود کیسے کسی مبینہ بکی نے ایک کھلاڑی سے فکسنگ کیلیے رابطہ کر لیا یہ بھی اہم سوال ہے، امید ہے ان غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے پی سی بی زمبابوے سے سیریز میں بہتر انتظامات کرے گا کیونکہ ہر بار پریس ریلیز اور دوستوں کی ٹویٹس غلطیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتیں۔
کرکٹ پاکستان اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔