اگر آپ سلیکشن میں اقرباپروری کو اہمیت دیں،ٹی ٹوئنٹی کی پرفارمنس پر ٹیسٹ ٹیم بنائیں،ان فٹ کھلاڑیوں کا انتخاب کریں
اگر آپ سلیکشن میں اقرباپروری کو اہمیت دیں،ٹی ٹوئنٹی کی پرفارمنس پر ٹیسٹ ٹیم بنائیں،ان فٹ کھلاڑیوں کا انتخاب کریں،ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین پرفارم کرنے والوں کو خون کے آنسو رلائیں اور باصلاحیت کرکٹرز کے کیریئر تباہ کریں تو ٹیم کا وہی حال ہوگا جو اب ہو رہا ہے، انضمام الحق جتنے بہترین بیٹسمین تھے بدقسمتی سے وہ اتنے ہی بدترین چیف سلیکٹر ثابت ہوئے، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جنوبی افریقہ میں رسوائیوں کی داستان رقم کرنے والی ٹیم ملک کے بہترین ٹیلنٹ پر مشتمل نہیں ہے، عابد علی نے ڈومیسٹک اور جونیئر کرکٹ میں رنزکے ڈھیر لگائے مگرکوئی فائدہ نہیں ہوا، ڈومیسٹک مقابلوں کے ٹاپ پرفارمرز اسکواڈ سے باہر اور پی ایس ایل کے ہیروز ٹیسٹ کھیل رہے ہیں،اس کی وجہ سلیکشن کمیٹی سے پوچھنی چاہیے۔
فواد عالم،آصف ذاکر، سعد علی،سمیع اسلم اور افتخاراحمدکے کیریئر کیوں تباہ کیے گئے؟ قائد اعظم ٹرافی میں رنز کے ڈھیر لگا کر عثمان صلاح الدین قومی ٹیم میں آئے مگر جلد ہی ٹیم سے باہر کر دیا گیا، اس کے برعکس مسلسل ناکامیوں کے باوجود امام الحق کو جنوبی افریقہ سے سیریز کیلیے منتخب کیا گیا جہاں وہ مزید ایکسپوز ہو گئے، جب ایسے فیصلے ہوں گے تو ٹیم کیسے جیتے گی،اس سے پہلے بھی کئی ایسی مثالیں موجود ہیں، دوسری جانب بھارت نے پرتھوی شا اور میانک اگروال جیسے کھلاڑیوں کو مواقع دیے تو انھوں نے پرفارم کرکے دکھایا، انضمام نے اپنے بھتیجے امام الحق کو متواتر ناکامیوں کے باوجود سپورٹ کیا اور زبردستی ٹیم میں فٹ کرا دیا، مگر وہ میدان میں خود ان کی جگہ جا کر کھیل نہیں سکتے، اوپنر یو اے ای میں تو ہیرو مگر جہاں ذرا گھومتی گیند آئے کبھی ہاتھ زخمی ہو جاتا ہے اور جب موقع ملے تو پرفارمنس نہیں ہوتی، چیف سلیکٹر کو اس ناقص کارکردگی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فوری طور پر عہدہ چھوڑ دینا چاہیے، مگر میں جانتا ہوں وہ ایسا نہیں کریں گے۔
جو آدمی بورڈ سے ایک کروڑ روپے لے کر ریٹائر ہو وہ کیسے 12 لاکھ روپے سے زائد ماہانہ کی پوسٹ خود چھوڑ سکتا ہے۔ اسی طرح کپتان سرفراز احمد بھی ٹیسٹ ٹیم کو فاتح جتھے میں تبدیل نہیں کرسکے، سوائے کیپ ٹاؤن ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں ففٹی کے ان کی اپنی کارکردگی بھی اچھی نہیں،ان کو بھی اب پانچ روزہ کرکٹ میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لینا چاہیے، مگر ہمیں دوسروں کو بھی کلین چٹ نہیں دینی چاہیے، مکی آرتھر پہلا ٹیسٹ ہارنے سے پہلے ہی کھلاڑیوں پر چڑھ دوڑے اورسب کی خوب کلاس لی تھی، مگر کیا ان سے کوئی کبھی سوال کرتا ہے کہ بھائی ٹیسٹ رینکنگ میں ایک زمانے میں ہم نمبر ون بنے اب چھٹے، ساتویں درجے پر کیوں ہیں، کبھی وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے پوچھتے ہیں کہ کیوں ٹیم کی کارکردگی اتنی شرمناک ہے۔
وہ ایک اوپننگ پیئر تو سیٹ نہیں کر سکے اور متواتر تجربات کیے جا رہے ہیں ٹیم کیسے سیٹ کریںگے، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور سے بھی پوچھنا چاہیے کہ ان کے دور میں کتنے بیٹسمینوں کی کارکردگی میں بہتری آئی، اب بھی وہی برسوں پرانی غلطیاں دہرائی جا رہی ہیں،ایسے میں ان کا فائدہ کیا ہے؟ جہاں جنوبی افریقی پیسرز نے تباہی مچا دی اسی نیولینڈز کی پچ پر ہم نے میزبان ٹیم کو رنز بنانے دیے، بولنگ کوچ اظہر محمود سے بھی سوال کریں کہ بولرز کیا کر رہے ہیں؟ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ حالیہ دورئہ جنوبی کے 2 ٹیسٹ میں ٹیم ابتدائی تین اننگز میں ڈبل سنچری بھی نہیں بنا سکی،ادھر گھر کا شیر کہہ کر ہم جس بھارتی ٹیم کا مذاق اڑایا کرتے تھے وہ آسٹریلیا میں 600 سے بھی زائد رنز بنا رہی ہے۔
جب سے مصباح الحق اور یونس خان ریٹائر ہوئے پاکستانی ٹیم نے ایک بار بھی 300 کا ہندسہ پار نہیں کیا،کیا ان دونوں سینئرز کو زندگی بھر کھیلنا تھا کہ دیگر نے ذمہ داری نہیں سنبھالی،اظہر علی اور اسد شفیق کی کارکردگی میں تسلسل کیوں نہیں ہے اس پر بھی غور ہونا چاہیے، جس طرح بیٹسمین کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں اگلے میچ کیلیے جگہ پکی کرنے والا اسکور بنا کر آؤٹ ہوئے وہ بھی شرمناک ہے، خود ناٹ آؤٹ جانے کے چکر میں ٹیل اینڈرز کو بھی ایکسپوز کیا گیا، صاف لگا کہ سب ٹیم نہیں بلکہ اپنے لیے کھیل رہے ہیں، ہمارے ملک میں ٹی ٹوئنٹی کی پرفارمنس پر ٹیسٹ بھی کھلا دیے جاتے ہیں، فخرزمان کے ساتھ بھی ایسا ہوا، وہ اس فارمیٹ میں بالکل بھی ایڈجسٹ نہیں ہو رہے اور ایسا ہی رہا تو محدود اوورز میں بھی پرفارم نہیں کر پائیں گے۔
ابتدا میں مجھے لگتا تھا کہ شاید فخر ٹیسٹ میں اچھا انتخاب ثابت ہوں مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوپایا، سب کو پتا ہے کہ جنوبی افریقہ میں پچز پیسرز کیلیے سازگار ہیں اس کے باوجود یاسر شاہ کو ابتدائی دونوں ٹیسٹ میں کیوں کھلایا گیا یہ سوال بھی ٹیم مینجمنٹ سے پوچھنا چاہیے، فہیم اشرف کوئی بہت بڑے آل راؤنڈر نہیں مگر جب اسکواڈ میں شامل کر لیا تو آزمانا تو چاہیے، اس تو اسکواڈ کا سلیکشن درست نہ تھا رہی سہی کسر ٹیم مینجمنٹ نے پلیئنگ الیون کے انتخاب سے پوری کر دی۔
پاکستانی ٹیم اب دوسرے ٹیسٹ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکی،میں نے ٹویٹر پر پیشگوئی کی تھی کہ کھلاڑیوں کو اتوار اور پیر کے دن کیپ ٹاؤن کی سیر کا بھرپور موقع مل جائے گا، اب ایسا ہی لگتا ہے، شاید آج پہلے ہی گھنٹے میں کھیل کا اختتام ہو جائے، یوں ایک اور سیریز پاکستان کے ہاتھوں سے نکل جائے گی، اس ٹیسٹ کے بعد بھی ٹور کے کئی میچز باقی ہیں، مزید منفی نتائج ورلڈکپ مہم پر بُرا اثر ڈالیں گے، مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگنی،آئندہ ماہ سب پی ایس ایل کی رنگینیوں میں گم ہو جائیں گے، چیف سلیکٹر اور کوچز کو کسی نہ کسی فرنچائز میں کوئی کام مل جائے گا اور ڈالرز آتے رہیں گے، عوام کی یادداشت بھی بہت کمزور ہے سب بھول جائے گی، یوں کچھ تبدیل نہیں ہوگا سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا، اس لیے سب سے آسان یہی ہے کہ سارا ملبہ کپتان پر گرا کر ہم بھی خاموش ہوجاتے ہیں۔
کرکٹ پاکستان اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔