blogs
English

پاکستان نے ٹی 20 ورلڈ کپ 2009 شان سے جیتا

دوسرے عالمی کپ میں پاکستان کی فتح کے 15 برس گزر جانے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم  9 ویں انٹرنیشنل ٹی 20 کپ میں شرکت کے  لیے امریکہ میں موجود ہے۔

پاکستان نے ٹی 20 ورلڈ کپ 2009 شان سے جیتا

کرکٹ کو اتفاق کا کھیل کہا جاتا ہے لیکن جذبہ، اتحاد اور لگن ہو تو کامیابی قدم چومتی ہے اور یہ بات  2009 میں دوسرے انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں صادق آئی۔ اس سے دو برس قبل 2007 میں  جنوبی افریقہ میں ہونے والے پہلے عالمی کپ میں روائیتی  حریف بھارت سے سنسنی خیز  فائنل  میں  5 رنز سے ناکام رہنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ میں منعقدہ  عالمی کپ میں نا ممکن کو ممکن کر دکھایا اورعالمی  چیمپئین  بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
قبل ازیں اسی سال مارچ میں لاہور ٹیسٹ کے دوران سری لنکن ٹیم پر دہشت گرد حملہ سے دنیا بھر میں  پاکستان کی سبکی ہو چکی تھی،شعیب ملک کو تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے ہٹاکر یونس خان کو پاکستانی ٹیم کا کپتان مقرر کردیا گیا تھا جبکہ اس سے پہلے جیف لاسن کی جگہ انتخاب عالم کا بطور کوچ انتخاب عمل میں لایا گیا، بظاہر انتشار کا شکار قومی ٹیم  جیت کے جزبہ کے ساتھ  انگلیںڈ پہنچی تواسے اہمیت نہ دی گئی، 5 تا21 جون منعقدہ  دوسرے ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ میں  شریک 12 ٹیموں کو 4گروپس میں نقسیم کیا گیا تھا، گروپ اے میں بھارت، آئر لینڈ اور بنگلا دیش، گروپ بی میں پاکستان ،انگلینڈ اور ہالینڈ،گروپ سی میں سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور آسڑیلیا اورگروپ ڈی میں جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی ٹیمیں شامل تھیں، ہر گروپ  کی ٹاپ دو ٹیمیں سپر8 مرحلہ میں کھیلنے کی حقدار ٹھہریں، ایک گروپ میں جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، انگلینڈ اور بھارت  جبکہ دوسرے گروپ میں پاکستان، سری لنکا، نیوزی لینڈ اورآئر لینڈ کی ٹیمیں شامل تھیں، ہر گروپ کی ٹاپ دو ٹیموں نے سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عا لمی کپ  کے  وارم اپ میچز میں ٹرینٹ برج میں جنوبی افریقہ  کے ہاتھوں59 رنز اور پھر اوول میں بھارت  سے9 وکٹوں کی شکست کے بعد  ایونٹ کے پہلے میچ میں میزبان انگلینڈ کے خلاف 48رنز کی  ناکامی نے امیدوں پر پانی پھیرا تو کپتان یونس خان نے  اپنے کھلاڑیوں کو بد دلی سے بچانے اور ان کو دباو سے نکالنے کے لیے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو تفریحی کرکٹ قرار دیتے ہوئےکہا کہ  سپرایٹ تک عدم رسائی کی صورت میں دکھ تو ہوگا لیکن اس طرز کی کرکٹ کی کوئی اہمیت نہیں، یونس خان کی ترکیب کارگر رہی اور اگلے اہم ترین میچ میں پاکستانی کے بولرز نے 176 رنز کا تعاقب  کرنے والی ہالینڈ کی ٹیم کو 93 رنز پر ہی ڈھیر کرلیا۔ 
دراصل یہ کامیابی شاہد آفریدی اور وکٹ کیپر کامران اکمل کی مرہون منت رہی، شاہد آفریدی کی چار وکٹیں اور مین آف دی میچ کامران اکمل  کی 41 رنز کی عمدہ اننگ اور چار کھلاڑیوں کو اسٹمپ آوٹ کرنا پاکستان کو ایونٹ میں واپس لے کرآیا، اگر ڈچ ٹیم 151 رنز جوڑ لیتی تو وہ  بہتر رن ریٹ اوسط کی بنیاد پرسپر ایٹ مرحلہ میں رسائی پالیتی اور پاکستان کے خواب ادھورے رہ جاتے،مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 
سپر ایٹ کے پہلے مرحلہ میں لارڈز کے تاریخی میدان میں سری لنکا  کے خلاف 19 رنز سے ناکامی نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو مایوسی  میں دھکیل  ڈالا لیکن پاکستان اگلے میچ میں اوول گراونڈ پر نیوزی لینڈ  کو دھول چٹا کر واپس کھیل میں آگیا، پہلے عالمی کپ میں 13 وکٹوں کے ساتھ ٹاپ بولر رہنے والے عمر گل نے 3 اوورز میں 6 رنز کے عوض 5 کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگا کراپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرانے میں مرکزی کردار ادا کیا اور انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی  میچ میں 5 وکٹیں پانے والے پہلے بولر کا اعزاز بھی اپنے نام کرلیا جسے کوئی بھی نہیں توڑ سکتا، تاہم  پاکستان کی جیت کی بنیاد آل راونڈر عبدالرزاق نے دو ابتدائی بیٹرز کو پویلین بھیج کررکھی اور یوں پاکستان کے لیے منزل تک رسائی کا راستہ کھلا۔
ناٹنگھم میں 18 جون2009 کو سیمی فائنل میں پاکستان کا جنوبی افریقہ سے مقابلہ ہوا، پاکستان مسلسل دوسری مرتبہ فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب رہا، ٹاس جیتنے کے بعد پہلے بیٹنگ  کرتے ہوئے مقررہ20 اوورز میں4 وکٹوں پر بنائے جانے والے 149 رنز میں میں آف دی میچ شاہد خان آفریدی کے46گیندوں پر8 چوکوں کی مدد سے 51 رنز قابل قدر رہے، جنوبی افریقہ کی ٹیم ہدف کے تعاقب  میں5 وکٹوں کے نقصان پر142 رنز اسکور کر سکی، جیک کیلس کے 54 گیندوں پر 64 رنز رائیگاں گئے،دوسری جانب سری لنکا نے اوول میں  ویسٹ انڈیز کو57 رنز سے قابو کرکے فائنل میں جگہ بنائی، پھر وہ لمحات آن پہنچے اورٹرافی کے لیے 21 جون کو لارڈز میں ہونے والے فائنل میں پاکستا ن نے سری لنکا کو8وکٹوں سے زیر کرکے تہلکہ مچا دیا، سری لنکا نے 6 وکٹوں پر138 رنز بنائے، پہلے اوور میں محمد عامر نے تلک دلشان، عبدالرزاق نے دوسرے اوور میں جہاں مبارک، چوتھے اوور میں جے سوریا اور پھر مہیلا جے وردھنے کو آوٹ کرکے حریف ٹیم کی بیٹنگ لائنس کو تہس نہس کرڈالا، عمر گل کے چمارا سلوا کو آوٹ کرنے کے بعد  شاہد آفریدی نے اودانا کو واپس پویلین بھیج کر پاکستان کو فتح کے دہانے پر پہنچایا، ہدف کے تعاقب میں پاکستان نے 18.4 اوور میں محض 2 وکٹیں  گنوا کر فتح  بآسانی اپنے نام کرلی اور عالمی چیمپئین بن گیا، کامران اکمل نے 28 گیندوں پر دو چوکوں اور اتنے ہی چھکوں کی مدد سے 37 رنز کی عمدہ اننگ کھیل کر پاکستان کو اچھا آغاز دیا، بولنگ کے بعد بیٹنگ میں بھی سرخرو ہونے والے شاہد خان آفریدی نے شعیب ملک کے ہمراہ تیسری وکٹ کی  ناقابل شکست شراکت میں 76 رنز جوڑے، شاہد آفریدی نے مسلسل دوسری ففٹی اسکور کی، انہوں نے 52 منٹ تک کریز پر رک کر40 گیندوں پر 54 رنز بنائے جن میں دو چوکے اور اتنے ہی چھکے بھی شامل تھے، شعیب ملک بھی 24 رنز کے ساتھ ناٹ آوٹ رہے۔ 
پہلے ورلڈ کپ میں  12 وکٹوں کے ساتھ مین آف دی ٹورنامنٹ رہنے والے شاہد خان آفریدی مین آف دی فائنل رہے جبکہ ایونٹ میں ان کی وکٹوں کی تعداد 11 رہی، اس شاندار کامیابی کے بعد ملک بھر میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور دنیا بھرمیں پاکستانیوں نے بھر پور جشن منایا، عالمی کپ کی فاتح قومی ٹیم یونس خان(کپتان)،  کامران اکمل،  شاہ زیب حسن،  شعیب ملک،  مصباح الحق، شاہد آفریدی، عبدالرزاق، فواد عالم، عمر گل، سعید اجمل اور محمد عامر پر مشتمل تھی،  شواہد ملتے ہیں کہ عالمی کپ سے قبل ہی پاکستان کرکٹ ٹیم شدید باہمی اختلافات کا شکار تھی اور کھلاڑیوں کے درمیان اتحاد اور اعتماد کا فقدان تھا، تاہم میگا ایونٹ میں کھلاڑیوں نے میدان میں بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا، تاہم  حیرت انگیز طور پر قومی ٹیم کے کپتان یونس خان نے اس عظیم الشان فتح کے فوری بعد فضا میں وننگ ٹرافی لہراتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ  کوخیرباد کہنے کا اعلان کرکے سب کو حیران کردیا، بعدازاں وہ وقت بھی آٰیا جب  محمد یوسف، شاہد آفریدی، مصباح الحق، شعیب ملک، کامران اکمل، رانا نویدالحسن اور سعید اجمل و دیگر ساتھی کرکٹرز نے یونس خان کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کردیا اوراسی سال دورہ آسٹریلیا میں  یونس خان پاکستان  ٹیم کا حصہ نہ تھے۔
دوسرے عالمی کپ میں پاکستان کی فتح کے 15 برس گزر جانے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم  9 ویں عالمی ٹی ٹوئنٹی کپ میں شرکت کے لیے امریکہ میں موجود ہے، پوری قوم کی نگاہیں عالمی ایونٹ پر ہیں، شاہد آفریدی کوعالمی کپ سے قبل دورہ آئرلینڈ اور انگلینڈ کے لیے 18 رکنی ٹیم میں سرپرائز نظر آیا، وہ کہتے ہیں کہ وسیم جونیئر، عامر جمال، محمد زمان اور محمد علی ہمارے پاس بہترین اپشن تھے، صاٸم ایوب کافی با صلاحیت کرکٹر ہے، امید ہے کہ  وہ  اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا،پاکستان کو ایسا اوپنر چاہیے جو آغاز میں چھ اوورز تک اچھا کھیلے، سلیکشن کے حوالے سے حارث اور صاحبزادہ فرحان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا،عالمی کپ ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹورنامنٹ میں امریکہ کی وکٹیں بیٹرز کے لیے سازگار ہوں گی،پاکستان کو ورلڈکپ فاٸنل لازمی کھیلنا چاہیے، دوسری جانب یونس خان کا کہنا ہے کہ  پاکستان عالمی ٹی ٹونٹی کپ کا فائنل کھیلنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے، میری خواہش ہے کہ بابر اعظم عالمی کپ میں مین آف دی سیریز ہوں اور پاکستان ایک مرتبہ پھر عالمی کپ کا فاتح بنے،بابر اعظم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگی، ان کو اپنی قیادت نے بہتری لانے کی ضرورت ہے، ٹیم کی کارکردگی کا انحصار تمام کھلاڑیوں پر ہوگا کیونکہ پاکستان کے پاس ایک نہیں بلکہ بابر اعظم، محمد رضوان، فخر زمان اور افتخار سمیت  پانچ سے چھ کھلاڑی ایسے ہیں جو میچ جتوانے کی اہلیت رکھتے ہیں، بیٹنگ آرڈر اور بولنگ کمبی نیشن میں  مزید بہتری لائی جائے تو پاکستان عالمی کپ  کے فائنل میں جگہ بنا سکتاہے، اچھے نتائج کے لیے ہر کھلاڑی کو اپنی زمہ داری اور کردار ادا کرنا ہوگا، عالمی کپ  میں پاک بھارت میچ میں ہمیشہ کی طرح اعصاب کا مقابلہ ہوگا، ہر ٹیم کے پاس کامیابی کے لیے ففٹی ففٹی  امکان ہوگا،عالمی کپ میں پاکستان کے لیے بابر اعظم  کی کارکردگی اہم ہوگی، بابر کو فرنٹ پر آکر بطور کپتان اپنی زمہ داری ادا کرنا ہوگی، ان کو  ٹیم کے لیے اسی طرح پلاننگ کرنا ہوگی جس طرح وہ اپنے لیے کرتے ہیں ،سب کھلاڑیوں کو صورتحال کےمطابق رنز بنانے ہونگے، بیٹرزکی ذمہ داری ہے کہ 15 گیندیں کھیل لیں تو تیزرنزبناٸیں، اننگز کے درمیانی اوورزمیں 10 کی اوسط سے رنز بناٸیں گے تو 200 رنزبنیں گے اور میچ میں پاکستان کی گرفت مضبوط ہوگی جس سے جیتنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

کرکٹ پاکستان اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔