blogs
English

غریب کرکٹرز کو بھی یاد رکھیں

ماضی میں ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے گراؤنڈز مینز اور کوچز میں سے بعض ذہنی تناؤ کے سبب انتقال بھی کر گئے تھے

غریب کرکٹرز کو بھی یاد رکھیں تصویر: پی سی بی

’’ایسا نہ سمجھیں کہ میں آپ سے کسی قسم کی مدد چاہتا ہوں نہ ہی میرا یہ مقصد ہے کہ ہمارے لیے کسی اور کو امداد دینے کا کہیں، ابھی اتنا بْرا وقت نہیں آیا، البتہ آگے حالات اچھے نہیں لگ رہے، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ ہماری آواز کسی طرح اعلیٰ حکام تک پہنچا دیں، یہ صرف میرا انفرادی نہیں سیکڑوں کرکٹرز کا مسئلہ ہے، ہماری آپس میں اس حوالے سے روز بات ہوتی رہتی ہے، شاید میرے 1،2 ساتھی بھی آپ سے رابطہ کریں‘‘

جمعے کی شام  لیپ ٹاپ پر دفتر کا کام کر رہا تھا تو فون کال آئی دوسری لائن پر ایک فرسٹ کلاس کرکٹر موجود تھے جنھوں نے مجھ سے یہ سب کچھ کہا، انھوں نے  ڈومیسٹک کھلاڑیوں کے مالی نقصان کا خدشہ ظاہر کیا، پھر ایک اورپلیئر نے بھی ایسی ہی باتیں کیں جس سے مجھے احساس ہوا کہ واقعی انھیں آنے والے وقت میں شدید مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،  پی سی بی نے سینئر،جونیئر کا فرق ختم کرتے ہوئے سب کی ایک ہی ماہانہ تنخواہ اور  میچ فیس مقرر کر دی تھی، ڈپارٹمنٹس سے لاکھوں روپے لینے والے کھلاڑی اب چند ہزار میں گزارا کرنے پر مجبور ہیں، کرکٹ مقابلے نہ ہوئے تو انھیں مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،گھرمیں راشن بھی ڈلوانا پڑتا ہے، اسکول والوں کو فیس، بجلی، گیس، ٹیلی فون، پانی اور دیگر یوٹیلیٹی اداروں کو اپنے بلز سے مطلب ہے، انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کورونا کی وجہ سے سب کو ان دنوں کن مشکلات کا سامنا ہے۔

ماضی میں ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے گراؤنڈز مینز اور کوچز میں سے بعض ذہنی تناؤ کے سبب انتقال بھی کر گئے تھے، بے روزگار ہونے والے لوگ ان دنوں کیسے گذارا کر رہے ہوں گے؟ پی سی بی کم از کم اس مشکل گھڑی میں ہی ان کی کچھ مدد کر دے،دیگر مخیرافراد کو بھی ان کا سوچنا چاہیے، افسوس کرکٹ حکام تو چین کی نیند سو رہے ہیں، ان کو اپنے لاکھوں روپے ماہانہ تو وقت پر ملتے رہیں گے تو دوسروں کی کیوں پروا کریں،اس وقت دنیا بھر میں  اسپورٹس اسٹارز اور فیڈریشنز بڑھ چڑھ کر امدادی کام کر رہی ہیں، مگر پی سی بی کو جب تک سوشل میڈیا پر احساس نہ دلایا گیا خاموشی چھائی رہی، امدادی رقم کا اعلان اچھی بات ہے مگر اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہیے، یہ مشکل وقت نجانے کب ختم ہوگا،پرانی ڈومیسٹک کرکٹ کو نئی پیکنگ میں پیش کر کے بورڈ نے اربوں روپے خرچ کر دیے،گذشتہ چند ماہ میں جس طرح پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا وہ آگے چل کر مالی مشکلات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

اس سے پہلے ہی  بعض مسائل نے پی سی بی کو گھیرا ہوا ہے، پی ایس ایل کے دوران  ہی مجھے پتا چل گیا تھا کہ میچز کی لائیو اسٹریمنگ ایک غیرملکی آن لائن جوئے کی کمپنی کو بیچ دیے گئے ہیں، میری عادت ہے کہ اپنی لیگ کے دوران ایسی خبریں دینے سے گریز کرنا ہوں تاکہ ایونٹ پر منفی اثر نہ پڑ جائے، جب پی ایس ایل ملتوی ہوئی تو میں نے طریقہ کار کے مطابق بورڈ کے ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی کو ٹیکسٹ میسیج کیا، انھوں نے مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ سے پوچھ کر بتانے کا کہا، پھر شام کو میڈیا ڈپارٹمنٹ کے عماد حمید کی کال آ گئی۔

انھوں نے مجھے اس ڈیل کے حوالے سے تفصیلات بتائیں کہ ’’پارٹنر کمپنی نے ایسا کیا اور شرطیں صرف ان ملکوں میں لگ سکتی ہیں جہاں جوا قانونی ہے وغیرہ وغیرہ‘‘، میں نے اس موقف  کے ساتھ خبر شائع کر دی، بورڈ کیلیے مسئلہ اس وقت بڑھا جب  راشد لطیف اور ڈاکٹر نعمان نیاز نے اس خبر پر پورا شو کر دیا، اسی لیے پھر کافی تاختر سے تردیدی بیان جاری کرنا پڑا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں بھی مان لیا گیا کہ ’’غیرملکی بیٹنگ کی کمپنی سے کمرشل پارٹنر نے تین سال کا معاہدہ کیا جس کا پی سی بی کو علم نہ تھا مگر اب  اس حوالے سے خط و کتابت شروع کر دی گئی ہے‘‘، میں  نے بھی تو یہی بات لکھی تھی پھر تردید کس کی کر رہے ہیں؟، ایک جوئے کی کمپنی میچز دکھانے کے حقوق کیا بچوں کی کوچنگ  کیلیے خریدے گی، ظاہر ہے اس کا مقصد اس پر شرطیں لگوانا ہی ہے،ہمارا مذہب اور ملکی قانون بھی ایسی سرگرمیوں کی سرپرستی کی اجازت نہیں دیتا، اگر پاکستان سے باہر  شرطیں لگیں تب بھی ایک غلط کام میں ساتھ کیوں دیا، ویسے ہی ہماری کرکٹ کوفکسنگ سے کتنا نقصان اٹھانا پڑا ہے، اگر بورڈ کی بات مان لیں کہ اسے پتا نہ تھا تو اس سے بڑی نااہلی کیا ہو گی کہ 30میچز گذرنے تک وہ لاعلم رہا اور ایک عام سے صحافی کی خبر سے پتا ہوا۔

جاوید میانداد کی بات درست ہے کہ اس معاملے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کراتے ہوئے ملوث افراد کو سزا دینی چاہیے، البتہ ایسا لگتا ہے کہ ماضی کے کئی ایشوز کی طرح یہ فائل بھی  قالین کے نیچے دب جائے گی،  عمر اکمل کے کیس میں بھی ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جب ان پر پابندی لگی تو ایسا ظاہر کیا گیا جیسے کسی بہت  مجرم کو پکڑ لیا ہے لیکن الزام مشکوک رابطے کی رپورٹ نہ کرنے کا عائد ہوا،  وہ بھی  چند ماہ کی پابندی کے بعد واپس آ جائیں گے اورکورونا سے نجات کے بعد جب میدان دوبارہ آباد ہوں گے تب تک یہ دورانیہ بھی مکمل ہو چکا ہوگا،معاملات  ایسے ہی چلتے رہیں گے۔

حفیظ جیسا کوئی سرپھرا اگر اٹھ کر یاد دلانے کی کوشش کرے کہ ’’کرکٹ ٹیلنٹ سے زیادہ ملکی وقار اہم ہے،کرپٹ کرکٹرز کو پاکستان کی نمائندگی کا موقع نہ دیا جائے‘‘ تو اسے ڈانٹ کر کہا جاتا ہے کہ ’’اپنے کھیل پرتوجہ دو صحیح غلط کا ہمیں نہ بتاؤ‘‘، اب سنا ہے سوشل میڈیا پر کھلاڑیوں کی زبان بندی ہونے والی ہے، میڈیا کو ویسے ہی کنٹرول کرنے کی کوشش کافی عرصے سے جاری ہے،اس کام میں  ’’بڑے افسران‘‘ کو اپنے بعض دوستوں کی بھرپور سپورٹ بھی حاصل ہے، کئی ’’غیراعلانیہ‘‘ ترجمان بورڈ کی بھرپور مدد کرتے رہتے ہیں، خیر ایسا ہمیشہ تو نہیں چل سکتا، عمران خان جب ’’کورونا وائرس‘‘ کے مسائل سے فارغ ہوئے اور ملک میں حالات نارمل ہوئے تو انھیں کرکٹ کی جانب دیکھنے کا بھی موقع ملے گا، شاید تب احساس ہو کہ اس شعبے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے،پھر یقینی طور پر کرکٹ معاملات میں بھی بہتری آئے گی، تب تک انتظار ہی کرنا چاہیے۔

کرکٹ پاکستان اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔