عمر اکمل کے کرکٹ میں کارنامے بے حد کم مگر تنازعات بے تحاشا ہیں
’آ بیل مجھے مار‘‘
’’ اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارنا‘‘
ایسی کوئی اور بات بھی اگر آپ سوچیں تو ذہن میں فوراً عمر اکمل کا نام آتا ہے، وہ ایسے انسان ہیں کہ اگر ایک طرف کھائی اور دوسری جانب کنواں ہوتو پہلے کنوئیں میں چھلانگ لگائیں گے، اگر کسی طرح بچ کر نکل آئے تو اگلا قدم کھائی کی جانب ہوگا، مصیبت کو خود دعوت دینے والی ایسی شخصیات آپ نے کم ہی دیکھی ہوں گی، عمر اکمل کے کرکٹ میں کارنامے بے حد کم مگر تنازعات بے تحاشا ہیں، اگر تنازع میں پڑنے کا ریکارڈ رکھا جاتا تو انھیں پاکستان کا ڈان بریڈ مین کہا جا سکتا ہے، اب آپ یہی دیکھیں کہ وہ کافی عرصے سے ٹیم سے باہر ہیں، انھیں اس دوران واپسی کیلیے تمام تر توجہ کھیل پر دیتے ہوئے تنازعات سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی مگر بغیر خبروں میں رہے ان کا گذرا نہیں ہوتا، لہذا ورلڈکپ 2015میں فکسنگ کی آفرز سے نیا پینڈورا باکس کھول دیا، شاید عمر اکمل کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ ان کیلیے بڑا مسئلہ بن جائے گا۔
وہ تو خود کو پاک صاف ظاہر کرنے کیلیے شعیب جٹ کو انٹرویو میں کہہ بیٹھے کہ ’’میں نے کبھی بکیز کی پیشکش قبول نہیں کی، بھارت سے میچ میں تو ہمیشہ ایسا ہوتا تھا، ورلڈکپ میں تو دو ڈاٹ بالز کیلیے دو لاکھ ڈالرز کی آفر ہوئی تھی‘‘ اس وقت انھیں یہ یاد نہ رہا کہ کسی مشکوک آفر کی رپورٹ نہ کرنا بھی جرم ہے، لہذا اب عمر اکمل پر پابندی کی تلوار لٹکنے لگی، دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ایونٹ کا وہ ذکر کر رہے ہیں اس کے بھارت سے میچ میں وہ چار گیندیں ضائع کر کے صفر پر وکٹ گنوا بیٹھے تھے، پورے ورلڈکپ کے سات میچز میں ان کی محض ایک ہی نصف سنچری تھی، مجھے یاد ہے کہ 2014میں عمر اکمل کی اینٹی کرپشن یونٹ کو فکسنگ رپورٹ کی خبر دی تھی مگر وہ 2012 کی انگلینڈ سے سیریز کا واقعہ تھا، اس کے بعد بھی انھیں آفرز ہوتی رہیں، بغیر غیرمعمولی پرفارمنس کے عمر اکمل کی بکیز میں بھی اتنی ڈیمانڈ واقعی کمال کی بات ہے۔
حیدرآباد کی مشروب والی محفل تو شاید لوگ بھول گئے ہوں مگر مکی آرتھر پر الزامات زیادہ پرانی بات نہیں، لہذا اب ان کے ہوتے ہوئے ویسے بھی عمر اکمل ٹیم میں نہیں آ سکتے تھے، اس نئے تنازع نے تو جو تھوڑا بہت امکان تھا وہ بھی ختم کر دیا، آرتھر تو بہت دور کی بات ہیں ڈومیسٹک ٹیموں کی مینجمنٹ بھی ان سے تنگ رہی، گذشتہ سال پاکستان کپ میں انھیں قیادت سونپنے کی غلطی کر دی گئی نتیجہ یہ نکلا کہ ٹی وی انٹرویو میں جنید خان پر جھوٹی بیماری کا الزام لگا کر تنازع کھڑا کر دیا، بعد میں بورڈ کو رپورٹ میں ان کیخلاف کارروائی اور نفسیاتی علاج کرانے کا کہا گیا مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، ان کے اعلیٰ حلقوں سے روابط اکثر انھیں بچا لیتے تھے مگراب شاید ایسا نہ ہو پائے،عمر اکمل کے ساتھ یقینی طور پر کچھ ایسے مسائل ہیں جن کیلیے انھیں ماہر نفسیات سے رابطہ کرنا چاہیے مگر افسوس ایسے لوگ کبھی یہ حقیقت تسلیم ہی نہیں کرتے کہ انھیں مددکی ضرورت ہے۔
کارکردگی، ڈسپلن کچھ بھی تو نہیںکس بنیاد پر وہ قومی ٹیم میں واپس آ سکتے ہیں، جس وقت 2009 میں کیریئر کے دوسرے ہی انٹرنیشنل میچ میں عمر اکمل نے ففٹی اور اگلے میں سنچری بنائی تو شائقین کو ایسا لگا کہ ملک کو ایک بہترین بیٹسمین مل گیا، مگر افسوس انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی کیریئر کا گلا گھونٹ دیا،9 سال ہو گئے وہ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں، وہ کوہلی جس کی وہ نقل کرتے رہے آج کہاں پہنچ گئے مگر عمر اکمل اپنی حرکتوں کی وجہ سے کرکٹ فیلڈ میں کچھ نہ کر سکے، پاکستان کیلیے 214 انٹرنیشنل میچز کھیلنے کے باوجود انھوں نے 6 ہزار رنز بھی نہیں بنائے، اس دوران صرف تین سنچریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انھوں نے اتنی کرکٹ بھی نجانے کیسے کھیل لی، عمر اکمل جیسے کھلاڑی کو باہر کر کے مکی آرتھر نے پاکستان کرکٹ پر بڑا احسان کیا، انھوں نے نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل جو ٹیم تشکیل دی وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
عمر اکمل سے تو پی ایس ایل میں ان کی ٹیم لاہور قلندرز بھی پریشان تھی، شاید اسی لیے ایونٹ کے درمیان میں ہی ان سے کہہ دیا گیا کہ ’’برائے مہربانی آپ ہوٹل میں ہی رہیں‘‘ ویسے یہ بھی ایک راز ہے کہ ایسا کیوں ہوا، ایک اور عجیب اتفاق ہے کہ وہ کراچی کنگز کیخلاف بھی کبھی رنز نہیں کرتے، اگر اب بھی لاہور نے اگلے سیزن کیلیے انھیں برقرار رکھا تو اس ٹیم کوایک گولڈ میڈل تو ضرور دینا چاہیے،ویسے لاہور کا بھی زیادہ قصور نہیں پی سی بی نے قوانین ہی ایسے بنائے ہیں جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی رواں برس عمر اکمل ٹیم میں شامل تھے، ایک آخری نمبر پر رہنے والی ٹیم کو اگر دس کھلاڑی برقرار رکھنے کو کہا جائے تو نان پرفارمرز کو کیسے باہر کیا جا سکے گا،امید ہے اس بار کچھ تبدیلی آئے گی۔ مجھے عبدالقادر کے بارے میں سوچ کر افسوس ہوتا ہے، اپنے داماد کی وجہ سے انھیں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت عمر اکمل کا جو علاج نظر آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ وہ کسی بہت اچھے ماہر نفسیات کے پاس جائیں، بعض دیگر شوق بھی انھیںترک کرنا ہوںگے، کچھ عرصے وہ سوشل میڈیا سے بھی دور رہیں تو ان کیلیے بہتر ہوگا،انھیں صرف اپنی کرکٹ پر توجہ دینا چاہیے، لفظی گولہ باری کے بجائے وہ بیٹ سے پرفارم کریں، یہ بات تسلیم کریں کہ وقار یونس، مکی آرتھر یا دیگر لوگوں کو ان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں جو رپورٹس میں منفی باتیں لکھیں، انھوں نے سچائی کی ہی نشاندہی کی تھی،اگر آپ صرف خود کو درست اور باقی پوری دنیا کو غلط سمجھیں گے تو ایسے ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، قادر بھائی جیسے اچھے لوگوں کی صحبت میں وقت گذاریں اوراپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں، ٹیلنٹ آپ میں یقیناً موجود تھا لیکن کامیابی کیلیے اچھا انسان بننا بھی ضروری ہوتا ہے،ایسا ہونا ناممکن نہیں آپ کوشش کر کے تو دیکھیں۔
کرکٹ پاکستان اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔