blogs
English

چلے ہوئے کارتوسوں سے جنگ نہیں جیت سکتے

اگر آپ کسی اور ٹیم سے ہارتے تو کوئی مسئلہ نہ تھا مگر غیرمعروف کرکٹرز پر مشتمل سری لنکن’’بی‘‘ سائیڈ سے کیسے ہار گئے

چلے ہوئے کارتوسوں سے جنگ نہیں جیت سکتے فوٹو: اے ایف پی

عمر اکمل اور احمد شہزاد کی قومی ٹیم میں واپسی کو جب میں نے تنقید کا نشانہ بنایا تو سوشل میڈیا پر ان کے ’’چاہنے والوں‘‘ نے مجھے خوب برا بھلا کہا، دونوں سے میری کوئی دشمنی نہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ اب کسی کام کے نہیں ہیں، ان کو اتنے مواقع ملے مگر اپنی حرکتوں کے سبب  اسٹارز کا درجہ حاصل نہ کر سکے، البتہ کئی تنازعات میں پڑ کر نہ صرف اپنا بلکہ ملک کا نام بھی خراب کیا۔

ہم سب سمجھ رہے تھے کہ دونوں اب قومی ٹیم میں کبھی واپس نہیں آئیں گے، مگر پاکستان کرکٹ کی طاقتور ترین شخصیت مصباح الحق کو نجانے کیا سوجھی کہ آتے ہی ان کو سری لنکا سے سیریز کیلیے اسکواڈ کا حصہ بنا لیا، وہ بولنگ کوچ وقاریونس سے ہی پوچھ لیتے کہ آپ نے کیوں اپنے دور کوچنگ میں دونوں کے بارے میں رپورٹ میں منفی ریمارکس دیے تھے، بطور کپتان مصباح عمر اور احمد سے کوئی کارنامہ سرانجام نہ دلا سکے۔

اب کوچنگ میں نجانے کیا سوچ  رہے تھے،کوچ  کوشاید یہ ڈر تھا کہ شعیب ملک اور محمد حفیظ کے بعد اگر کوئی سینئر ٹیم میں نہ ہوا تو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے اسی لیے انھوں نے یہ فیصلہ کیا، پھر پلیئنگ الیون میں احمد شہزاد کی جگہ بنانے کیلیے فخرزمان کو ڈراپ کر دیا جنھوں نے ون ڈے سیریز میں مسلسل 2نصف سنچریاں بنائی تھیں، اس کا نقصان یہ ہوا کہ اسکور 22 تک پہنچنے تک دونوں ’’اسٹارز‘‘ پویلین لوٹ چکے تھے جس سے ٹیم کے جیتنے کا امکان ختم ہو گیا۔

اس دوران بابر اعظم کے آؤٹ ہونے سے بیٹنگ کی کمر ٹوٹ چکی تھی، جب آپ ایک ہی کھلاڑی پر انحصار کرتے ہیں تو اس کا نقصان تو اٹھانا ہی پڑتا ہے، شاید عمر اور احمد کو یہ سوچ کر سری لنکا کیخلاف کھلایا گیا کہ کمزور حریف کیخلاف آسانی سے پرفارم کرکے ٹیم میں سیٹ ہو جائیں گے، مگر پہلے میچ میں یہ تجربہ ناکام رہا، چلے ہوئے کارتوسوں سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی، اب نئے بچوں کو موقع دیں کب تک ایسے کھلاڑیوں کو ہی آزماتے رہیں گے، اگر یہ اتنے’’عظیم بیٹسمین‘‘ ہیں تو براہ راست آسٹریلیا کے ٹور پر لے جاتے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا۔

ہو سکتا ہے کہ اگلے دونوں میچز میں عمر اور احمد سنچریاں بنا دیں مگر پھر بھی یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ وہ لمبی ریس کے گھوڑے نہیں ہیں، اس لیے مصباح کو بھی چاہیے کہ جراتمندانہ فیصلے کریں، پہلے ٹی ٹوئنٹی میں بدترین شکست نے سرفراز احمد پر دباؤ بھی بڑھا دیا ہے، جب تک وہ خود پرفارم نہیں کرتے ٹیم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،ورلڈنمبر ون رینک ہونا اس بات کا خماز نہیں کہ ہم ہمیشہ جیتتے رہیں گے، فہیم اشرف کو خراب کارکردگی پر ورلڈکپ اسکواڈ سے باہر کیا گیا اور اب واپسی پر ایک بار پھر وہ بولنگ اور بیٹنگ دونوں میں ناکام رہے۔

افتخار احمد ، آصف علی، عماد وسیم اور شاداب خان بھی مشکل وقت میں ٹیم کو سہارا نہ دے سکے، جب آپ پردیپ اور اوڈانا جیسے بولرز کی گیندوں پر اپنے ہوم گراؤنڈ پر جدوجہد کریں تو سمجھ جائیںکہ  ٹیم کے حالات اچھے نہیں ہیں، بولرز نے بھی ابتدا میں بہت مایوس کیا، ایک وقت تو سری لنکن سائیڈ 10کی اوسط سے رنز بنا رہی تھی اور ایسا بھی لگنے لگا کہ شاید 200کا ہندسہ پار ہو جائے مگر پھر  حالات تھوڑے کنٹرول  میں آ گئے،محمد حسنین نے گوکہ ہیٹ ٹرک کی مگر وہ خاصے مہنگے ثابت ہوئے۔

شاداب خان کی بولنگ میں بھی کاٹ دکھائی نہ دی، عامر اور عماد وسیم کو تو کوئی وکٹ ہی نہ ملی، کسی لحاظ سے بھی یہ کارکردگی پاکستانی ٹیم کے شایان شان نہ تھی اور کئی سوال چھوڑ گئی ہے،مصباح الحق کو اب حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی،  اگلے سال آسٹریلیا میں ورلڈکپ ہو رہا ہے، ایسی پرفارمنس سے تو آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں لگتا، انھیں سلیکشن میں ریورس گیئر لگانے سے اجتناب برتنا ہوگا، بھولی بسری داستان بنے پلیئرز کو موقع دینے کے بجائے نوجوانوں پر انحصار کریں، فوری طور پر نہیں تو وہ چند میچز بعد پرفارم کرنے لگیں گے۔

دفاعی حکمت عملی سے تو نقصان ہی ہو گا جس کا مصباح کو کچھ اندازہ ہوگیا، 10 اسٹارز سے محروم سری لنکن ٹیم سے یہ شکست شرمناک ہے جس کا کوئی جواز نہیں دیا جا سکتا، شاید پاکستان نے حریف کو آسان تصور کر لیا، پلیئرز یہ بات بھول گئے کہ ٹی ٹوئنٹی میں کوئی ٹیم کمزور نہیں ہوتی، گوناتھلاکا کو اس سیریز سے قبل کوئی نہیں جانتا ہو گا اب وہ اسٹار بن گئے ہیں، پاکستانی ٹیم کی یہ ’’خوبی‘‘ ہے کہ وہ ہر سیریز میں حریف سائیڈ کے ایک عام کھلاڑی کو بڑا نام بنا دیتی ہے۔

خیر ابھی بھی وقت نہیں گذرا ٹیم مینجمنٹ کو ساتھ بیٹھ کر شکست کی وجوہات کا جائزہ لینا ہوگا، سلیکشن میں خاص طور پر بہتری کی ضرورت ہے، فخر زمان کو ڈراپ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا، حارث سہیل بھی کم بیک کے بعد عمدہ پرفارم کر رہے ہیں انھیں بھی موقع دینا چاہیے، وقار یونس بولرز کی خامیوں کو دیکھیں اور انھیں بہتری کیلیے تجاویز دیں، ابتدا میں اگر آپ وکٹیں نہ لیں تو حریف کو بڑے اسکور سے روکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے پاکستان سے بھی یہی غلطی ہوئی، مین بولر عامر سمیت دیگر ابتدا میں اچھا پرفارم نہ کر سکے جس سے سری لنکا کو فائٹنگ مجموعہ تشکیل دینے میں مدد ملی، پھر بیٹنگ میں جو ہوا اس کا ذکر پہلے کیا جا چکا۔

اگلے دونوں میچز جیت کر گرین شرٹس نے سیریز اپنے نام کر لی پھر بھی یہ شکست ٹیم مینجمنٹ کو ستائے گی، اس سے خامیاں کھل کر سامنے آ گئی ہیں،انھیں دور کرنے کے بجائے اگر مٹی ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی گئی تو مزید نقصان ہوگا،  اگر آپ کسی اور ٹیم سے ہارتے تو کوئی مسئلہ نہ تھا مگر غیرمعروف کرکٹرز پر مشتمل سری لنکن’’بی‘‘ سائیڈ سے کیسے ہار گئے، یہ سوال نہ صرف پاکستانی پلیئرز، ٹیم مینجمنٹ بلکہ شائقین کو بھی اب کافی عرصے تک ستاتا رہے گا۔

کرکٹ پاکستان اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔