پاکستانی ٹیم اب مزید پوائنٹس گنوانے کی متحمل نہیں ہو سکتی ورنہ سیمی فائنل میں رسائی خطرے میں پڑ جائے گی۔
اس بار عید کے چاند کا مجھے بے تابی سے انتظار تھا، اندازے سے کچھ عرصے قبل 6 جون کا لندن کا ٹکٹ بک کرالیا تھا، اب اگر عید 5 تاریخ کو ہوتی تو ہی پہلا دن مجھے گھر پر گذارنے کا موقع مل سکتا تھا، شکر ہے ایسا ہی ہوا اور پھر دوسری صبح میں برطانیہ روانہ ہوگیا، ایمرٹس ایئرلائنز کی پرواز کراچی سے تاخیر سے روانہ ہوئی، دبئی پہنچنے پرڈیڑھ گھنٹے بعد لندن روانہ ہونا تھا۔
تاخیر کا نقصان یہ ہوا کہ تقریباً دوڑ کر اگلے گیٹ کو تلاش کرنا پڑا، وہ تو شکر ہے ایئرپورٹ اسٹاف نے ٹرین کے بجائے بس میں بھیجا ورنہ فلائٹ کا مس ہونا یقینی تھا، جب میں گیٹ پر پہنچا تو فلائٹ کلوز ہونے میں صرف 15 منٹ باقی تھے، امریکا اورآسٹریلیا کے طویل فضائی سفر کے بعد اب مجھے 7،8 گھنٹے کا برطانیہ کا سفر زیادہ طویل نہیں لگتا، انگلینڈ کی گرمی بھی ہمارے لیے سردی سے کم نہیں،کراچی سے روانگی کے وقت ہی مجھے موسم کا اندازہ تھا اسی لیے گرم کپڑے ساتھ رکھ لیے تھے۔
لندن ایئرپورٹ پہنچتے ہی جیکٹ نکال کر پہن لی،خلاف توقع امیگریشن اور سامان وصول کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا،پہلے میرا ارادہ تھا کہ اسی روز اوول گراؤنڈ جا کر اپنا ایکریڈیشن کارڈ وصول کروں گا مگر پھر فیصلہ کیا کہ اگلے روز برسٹل میں ہی ایسا کرلوں گا،انگلینڈ میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے جسے دیکھ کر آپ کی تھکن ویسے ہی دور ہو جاتی ہے، کراچی کی سخت گرمی سے یہاں کا ٹھنڈا موسم بھی کسی نعمت سے کم نہیں، جگہ جگہ موجود گراؤنڈز دیکھ کر علم ہوجاتا ہے کہ گورے اسپورٹس کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔
موسم کا جائزہ لینے کے بعد مجھے پتا چلا کہ اگلے روز برسٹل میں 95 فیصد بارش کا امکان ہے، یہاں کی پیشگوئیاں تقریباً درست ہی ثابت ہوتی ہیں، میں سمجھ گیا کہ میچ کا انعقاد مشکل ہی ہے لیکن وہاں جانا تو تھا،اگلی صبح میں برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافی غلام حسین اعوان کے ساتھ برسٹل روانہ ہوا، دو گھنٹے سے زائد وقت کا سفر ان کی دلچسپ باتوں میں کب مکمل ہوا پتا ہی نہیں چلا، راستے بھر بارش ہوتی رہی، کار پارک کرنے کے بعد بھیگتے ہوئے جب گراؤنڈ پہنچے تو میں ایکریڈیشن کارڈ وصول کرنے چلا گیا، وہاں موجودآفیشلز سے بات ہوئی تو سب کا یہی خیال تھا کہ میچ کا انعقاد ہونا ممکن نہیں ہے۔
اس دوران گراؤنڈ کے باہر پاکستانیوں کی بڑی تعداد نظر آئی، پوری پوری فیملیز آئی ہوئی تھیں، بہت سے لوگوں نے موسم کی صورتحال دیکھ کر گھروں پر رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا، ایسے افراد کی تعداد بھی کم نہ تھی جو اس آس میں پہنچے کہ شاید میچ کا انعقاد ہو جائے، برسٹل کاؤنٹی کرکٹ گراؤنڈ بہت چھوٹا سا ہے، اگر مقابلے کا انعقاد ہوتا تو شائقین کو چوکوں چھکوں کی برسات بھی دیکھنے کو مل سکتی تھی، اس وقت تک ٹیموں کو بھی ہوٹل میں ہی رکنے کا کہا گیا تھا، پریس باکس میں ساتھی صحافیوں سے ملاقات ہوئی۔
شاہد اختر ہاشمی کے کوئی دوست شیرخرمہ لائے تھے، انھوں نے سب کی اس سے تواضع کرائی اور وطن سے دور عید کا سماں پیدا کیا، کچھ دیر بعد ٹیموں کو گراؤنڈ بلا لیا گیا، سرفراز احمد و دیگر پلیئرز شائقین کو آٹوگراف دینے کے ساتھ تصاویر بھی بنواتے رہے، اس دوران گراؤنڈ کے بڑے حصے میں کورز موجود تھے، اسٹاف مسلسل آؤٹ فیلڈ سکھانے میں مصروف رہا، حالانکہ انھیں پتا تھا کہ بعد میں پھر بارش کا امکان ہے لیکن اپنا کام تندہی سے انجام دیا، اس دوران سب کو یہی آس لگی رہی کہ شاید دھوپ نکل آئے اور 20اوورز کے میچ کا ہی انعقاد ہو سکے، البتہ وقار یونس کی رائے میں میچ کا انعقاد ہونا ممکن نہ تھا، وہاں وسیم اکرم اور رمیز راجہ بھی موجود تھے، تینوں سابق اسٹارزکمنٹری کیلیے آئے ہوئے ہیں۔
سابق کپتان ظہیر عباس سے بھی ملاقات ہوئی جو ورلڈکپ میچز دیکھنے کیلیے برطانیہ میں موجود ہیں، جب امپائرز گراؤنڈ کا معائنہ کرنے گئے تو سوٹ میں ملبوس ایک صاحب بھی ساتھ موجود اور باتیں کرتے دکھائی دیے، وہ ایم ڈی پی سی بی وسیم خان تھے، میں نے دل میں سوچا کہ ان کا فیلڈ میں کیا کام ہے، انھوں نے جب سے عہدہ سنبھالا بیشتر وقت پاکستان سے باہر ہی گذار رہے ہیں، اتفاق سے اپنے اصل ملک انگلینڈ میں آنا جانا زیادہ ہی لگا رہتا ہے، بورڈ کے ڈائریکٹر ذاکر خان نے بھی مفت کے دورے کو چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا، خیر پی سی بی شاید ایسا ہی ادارہ ہے کہ جو بھی آئے وہاں کے رنگ میں رنگ کر مال مفت دل بے رحم کی عملی مثال بن جاتا ہے۔
ماضی میں بڑوں سے سنا کرتا تھا کہ اگر کسی کی شخصیت کا اصل اندازہ لگانا ہو تو سفر یا پھر جب وہ پاورمیں ہو تو اسے دیکھ لو، پہلے ہی دن برسٹل میں بعض لوگوں کے رویے سے اس کا اندازہ بھی ہو گیا، انھوں نے ایسا رنگ بدلا ہے کہ کیا بتاؤں خیرکبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں، بارش رکنے کے بعد کورز ہٹانے کا کام شروع ہوا البتہ پچ اور اطراف کا ایریا ویسے ہی کور رہا، ہلکی دھوپ نکلی تو شائقین کی آس بڑھی اور وہ گراؤنڈ میں اپنی نشستوں پر آ کر بیٹھ گئے، کسی نے پورا چہرہ پاکستانی پرچم سے پینٹ کرایا ہوا تھا کوئی مکمل سبزلباس پہنے ہوا تھا، بیشتر افراد کے ہاتھوں میں قومی پرچم موجود تھا۔
لوگ مسلسل پاکستانی ٹیم کے حق میں نعرے لگاتے رہے، وطن سے دورجاکر وطن سے محبت کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے، دوپہر میں جب امپائرز اور ریفری پھر میدان میں داخل ہوئے تو لوگ اچھی خبرکا انتظار کرتے رہے مگر ایسا نہ ہوا اور میچ منسوخ کرنے کا اعلان کردیا گیا، ایسا گراؤنڈ گیلا ہونے کی وجہ سے کیا گیا جس پر کھلاڑی زخمی ہو سکتے تھے،لوگ مایوسی کا شکار ہوکر واپس جانا شروع ہو گئے۔
برطانیہ کے مختلف شہروں سمیت یورپی ممالک اور امریکا تک سے لوگ یہ میچ دیکھنے آئے تھے، ہم میڈیا والے اس انتظار میں تھے کہ شاید پی سی بی کسی کھلاڑی سے بات کرا دے مگر حیران کن طور پر ایسا نہ ہوا، مجھے ساتھی صحافیوں نے بتایا کہ ٹور میں پالیسی یہی رہی ہے کہ کھلاڑیوں کو اپنے میڈیا سے دور رکھا جائے، خود خبریں بنا کر یا بلاگز جاری کیے جائیں تاکہ بورڈ کا بیانیہ ہی سامنے آ سکے۔
یہ پالیسی درست نہیں امید ہے آگے جا کر اس پر نظرثانی ہوگی کیونکہ اتنی دورآ کر اگر صحافیوں کو اپنے کھلاڑیوں تک رسائی نہ ملے تو کیا فائدہ۔ برسٹل سے واپسی پر جب موسم کی پیشگوئی دیکھی تو علم ہوا کہ آسٹریلیا کیخلاف ٹاؤنٹن میں اگلے میچ والے دن بھی بارش کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، پاکستانی ٹیم اب مزید پوائنٹس گنوانے کی متحمل نہیں ہو سکتی ورنہ سیمی فائنل میں رسائی خطرے میں پڑ جائے گی،خیر دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے، ہمیں اچھے کی ہی امید رکھنی چاہیے۔
نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔