featured
English

پی سی بی کی دیواروں کے اب کان نہیں ہیں

پچھلے پی ایس ایل کی بات ہے میں دبئی کے ہوٹل کی لابی میں موجود تھا اچانک پی سی بی کے ایک آفیشل آتے دکھائی دیے

پی سی بی کی دیواروں کے اب کان نہیں ہیں PHOTO: PCB

پچھلے پی ایس ایل کی بات ہے میں دبئی کے ہوٹل کی لابی میں موجود تھا اچانک پی سی بی کے ایک آفیشل آتے دکھائی دیے،مجھے دیکھ کر انھوں نے فوراً راستہ بدل لیا، پھر ایک اور صاحب نظر آئے تو انھوں نے بھی منہ پھیر لیا، میرے لیے یہ رویہ حیران کن نہ تھا کیونکہ ان دنوں سابق چیئرمین نجم سیٹھی مجھ سے ناراض تھے،ایکریڈیشن تک روکنے کا اعلان ہو چکا تھا۔

ایسے میں اگر وہ کسی کو میرے ساتھ بات کرتے دیکھ لیتے تو اس کی خیر نہیں تھی لیکن اس کے باوجود میں دبئی گیا اور کارڈ بھی مل گیا،جس پر بعض ’’دوستوں‘‘ نے یہ بے پرکی اڑا دی کہ میں نے چیئرمین سے معافی مانگی تھی، خیر ان دنوں بورڈ میں الگ ہی قسم کا ماحول ہوتا تھا، لوگ فون اٹھانے سے ڈرتے تھے، گورننگ بورڈ کی میٹنگ میں بھی فون ٹیپ کرائے جانے کی بازگشت سنائی دی تھی۔

میرے ایک دوست سڈنی پولیس میں ملازمت کرتے ہیں،چند برس قبل ایک دن وہ مجھے اپنے دفتر لے کر گئے تھے مگر مجھے وہاں کا ماحول کسی کارپوریٹ ادارے جیسا لگا، البتہ پی سی بی میں ایسا نہیں تھا، وہاں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ کسی خفیہ ایجنسی کے دفتر میں آئے ہیں،جن لوگوں کا کام کھلاڑیوں کو منفی عناصر سے دور رکھنا تھا وہ اپنے ہی لوگوں کی جاسوسی میں لگے تھے، ایک سابق چیئرمین نے لارڈز میں وسیم اکرم اور دیگر بڑی شخصیات کی موجودگی میں اعتراف کیا تھا کہ ان کے پاس بعض صحافیوں کی کالز کا ریکارڈ موجود ہے، اس پر وہاں موجود ایک آفیشل بغلیں جھانکنے لگے تھے کیونکہ ان پر میڈیا پر خبریں لیک کرنے کا الزام تھا۔

آپ اب بھی یو ٹیوب پر سرچ کریں ایک سابق بورڈ آفیشل کی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے جس میں وہ میچ فکسنگ سمیت کئی امور پر کھل کر اظہارخیال کر رہے ہیں،ان کے دور میں تو اعلیٰ آفیشلز کے کمروں تک میں جاسوسی کے آلات نصب تھے،کرکٹ بورڈ کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی تھی کہ وہاں کی دیواروں کے بھی کان ہوا کرتے تھے، مگر اب نئے سیٹ اپ میں ایسا نہیں رہا۔

احسان مانی اچھے انسان ہیں، وہ سازشی ہیں نہ ذاتی نمودونمائش کے خواہشمند، چیئرمین وزیر اعظم عمران خان کی پالیسی کے مطابق کچھ اچھا کام کرنے کا ارادہ لیے پی سی بی میں آئے ہیں لہذا اب وہاں کا ماحول بھی بہتر ہو چکا،وہ پرانے وقتوں کے کھلاڑی ہیں جبکہ اب کرکٹ تبدیل ہو چکی، انھوں نے بہت سلو آغاز لیا مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہاتھ پاؤں کھولتے ہوئے اسٹروکس کھیلنا شروع کر دیے ہیں۔

سیکیورٹی اینڈ اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر کرنل (ر) محمد اعظم خان کا استعفیٰ اس کی بڑی مثال ہے،گوکہ پی سی بی کی ویب سائٹ چلانے والوں کو اس کا علم نہیں اور اب بھی انہی کو ڈائریکٹر لکھا ہوا ہے، ویسے کم لوگوں کو ہی یہ بات معلوم ہوگی کہ ان سے کہا گیا کہ وہ خود عہدہ چھوڑ دیں کیونکہ پی ایس ایل سے قبل نئے چیئرمین اس شعبے میں بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔

اعظم کے دور میں اسپاٹ فکسنگ کا کیس بھی سامنے آیا جس کا بھانڈا آئی سی سی نے پھوڑا تھا یہ کیس کئی برس چلا اور کچھ عرصے قبل ہی کھلاڑیوں کو سزائیں دینے کا عمل مکمل ہوا ہے، اب نئی پی ایس ایل آنے والی ہے، بورڈ نے ریٹائرڈ کرنل آصف محمود کا بطورکنسلٹنٹ تقرر کر لیا، ایونٹ کے بعد ہی کسی ڈائریکٹر کا انتخاب ہوگا، میڈیا ڈپارٹمنٹ میں اب آئی سی سی کی ملازمت چھوڑ کر سمیع برنی آئے ہیں، وہ پروفیشنل انسان ہیں اور امید ہے بہتری لائیں گے مگر اس کیلیے انھیں سابقہ چیئرمین کے لائے ہوئے بعض سفارشی افراد سے دور رہنا ہوگا،وہ بیحد تجربہ کار آفیسر اور یقیناً یہ جانتے ہیں کہ آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا کلچر بالکل الگ ہے لہذا یہاں مختلف انداز میں کام کرنا ہوگا۔

ویسے میڈیا ڈپارٹمنٹ میں تبدیلی آنے لگی ہے،نجم سیٹھی کے قریبی ہمارے بعض ’’دوست‘‘ جنھیں نئے چیئرمین لفٹ نہیں کراتے انھوں نے کہنا شروع کر دیا کہ احسان مانی تو صرف چند ہی لوگوں سے بات کرتے ہیں، شاید اسی لیے چیئرمین کو ’’ہدایت‘‘ ملی ہے کہ سر آپ کم بولیں،میڈیا میں نجم سیٹھی کے ’’دوست‘‘ بہت تھے کیوں تھے یہ نہ پوچھیں، مانی صاحب کی چند ہی سے سلام دعا ہے مگر لگتا ہے وہ بھی لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہی،خیر امید ہے سمیع برنی کے آنے سے اس شعبے میں پروفیشل طور پر بہتری آئے گی۔

ایم ڈی وسیم خان بھی آئندہ ماہ عہدہ سنبھالنے والے ہیں، وہ بھی باہر سے آئیں گے لہذا ان کو جلد اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا،البتہ صورتحال ان کے لیے آسان نہیں ہو گی، انھیں وہی ہارون رشید، ذاکر خان اور دیگر پرانے اور تاحیات پی سی بی آفیشلز کے ساتھ کام کرنا ہے ، جب ٹیم اچھی نہیں ہو گی تو مثبت نتائج کیسے سامنے آئیں گے،ہاں البتہ اگر وسیم خان نے اپنی مرضی سے پروفیشنلز کی ٹیم بنا لی تو یقیناً کامیاب رہیں گے، مجھے لگتا ہے ان کے آنے کے بعد احسان مانی ازخود پیچھے ہو جائیں گے، اسپورٹس ٹاسک فورس کے معاملات بھی انھیں دیکھنے ہیں۔

ذاکر کے ذکر سے یاد آیا کہ انھیں شاید ان دنوں زیادہ لفٹ نہیں مل رہی، ویسے وہ پہلے بھی کچھ کیے بغیر تنخواہ اور مراعات لیتے رہے اب بھی سمجھیں ایسا ہی چل رہا ہے، اب تو خیر ان کو ڈائریکٹر کا عہدہ واپس مل گیا اور غیرملکی دورے بھی خوب ہو رہے ہیں لہذا عیش کریں دوسروں کے خرچے پر، البتہ جس طرح تواتر سے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ان کی تصاویر آ رہی ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ پیغام دیے جا رہے ہیں کہ ’’یاد ہے ناں میں کس کا دوست ہوں‘‘۔

مارکیٹنگ ڈائریکٹر نائلہ بھٹی بھی مستعفی ہو چکیں البتہ اب بھی پی سی بی میں کئی ایسے پرانے لوگ موجود ہیں جنھیں گھر جانا چاہیے، ویسے کئی بڑے شعبوں میں تبدیلی تو آ چکی، اب احسان مانی کے پاس کوئی جواز موجود نہیں لہذا انھیں ڈلیور کرنا ہوگا،کچھ بہتری تو آئی ہے، پی ایس ایل فرنچائزز کی ناراضی بھی کم ہو گئی،مگر ایسا لگتا ہے کہ چیئرمین کی ابھی کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس پر زیادہ گہری نظر نہیں ہے،اسی لیے ٹیسٹ میں کلین سوئپ کے باوجود خاموشی ہے اور چیف سلیکٹر ’’انزی دی لیجنڈ‘‘(ٹویٹر والا نام) کو جوائے ٹرپ پر جنوبی افریقہ جانے کی بھی اجازت دے دی گئی، میڈیا اور شائقین کسی چیئرمین کو ٹیم کی کامیابیوں سے ہی یاد رکھتے ہیں لہٰذا انھیں اب اس حوالے سے بھی سوچنا ہوگا۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq  پر فالو کر سکتے ہیں)