ورلڈکپ کی تجرباتی مہم کا مایوس کن اختتام۔
سیاستدانوں کی جانب سے جھوٹی امیدوں اور بے بنیاد دعوؤں کی عادی پاکستانی قوم بہتری کے انتظار میں زندگی کے شب و روز گزارتی رہتی ہے، ہر ناکامی کے بعد نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کی باتیں ہوتی ہیں لیکن کچھ تبدیل نہیں ہوتا، ملکی کرکٹ بھی اسی صورتحال کی آئینہ دار دکھائی دیتی ہے۔
ورلڈکپ 1992کا ٹائٹل جیتنے کے بعد پاکستان نے ساتویں میگا ایونٹ میں شرکت کی ہے، اس دوران 1999کا فائنل اور2011میں سیمی فائنل کھیلنے کا موقع ملا، دیگر 5ٹورنامنٹس میں اگلی بار بہتر تیاری اور کارکردگی کے دعوے سامنے آئے لیکن تبدیل کچھ بھی نہیں ہوا۔
ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کو ہٹاکر احسان مانی کو لایا گیا تو شائقین نے ایک بار پھر آس لگالی کہ آئی سی سی کے سابق چیف اپنے وسیع تجربے کی بناپر پاکستان کرکٹ کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا، کئی دہائیوں سے پی سی بی کے ساتھ چپکے ہوئے عہدیداروں کی بڑی تعداد برقرار رہی،تاہم اس میں انگلینڈ سے برآمد کردہ ایم ڈی وسیم خان سمیت بھاری تنخواہوں پر نئے چہروں کا تقرر کردیا گیا جن کا پہلا منصوبہ قومی ٹیم کی سلیکشن اور دیگر مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے کرکٹرز کو بے روزگار کرنا ہے۔
گزشتہ ورلڈکپ کے بعد مصباح الحق کی رخصتی کے بعد ٹیم کی تشکیل نو کرتے ہوئے اس کو جدید کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی مہم شروع ہوئی جو احسان مانی کے دور میں ختم نہیں ہوئی،نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ میگا ایونٹ کے 4گزرنے کے باوجود پاکستان ٹیم تجربات کی لیبارٹری نظر آرہی تھی،اس عرصہ میں گرین شرٹس نے جو میچز کھیلے اس میں بھی زیادہ فتوحات کمزور ٹیموں کے خلاف تھیں لیکن سلیکٹرز اور حکام چلے ہوئے کارتوسوں پر انحصار کرتے رہے، اکا دکا میچز میں کارکردگی کی بنیاد پر کیریئر کو طویل کرنے والوں کو برقرار رکھنے کا نقصان ہوا کہ کئی نوجوان کرکٹرز کی حق تلفی ہوئی اور ان کو ورلڈکپ کے بڑے چیلنج کیلئے گروم کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔
ہیڈ کوچ مکی آرتھر دلیرانہ کرکٹ کو فروغ دینے کے دعوے کرتے رہے،اس کی ایک جھلک چیمپئنز ٹرافی میں نظر بھی آئی لیکن اس کے بعد دیگر ٹیموں نے پاکستانی کرکٹرز کی کمزوریوں پر ہوم ورک کیا اور ان پر قابو پانے کے نسخے تلاش کرلئے، دوسری طرف گرین شرٹس کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی،مثال کے طور پر چیمپئنز ٹرافی کے ہیرو فخرزمان کے بیس بال سٹروکس کو دیکھتے ہوئے انہیں آسٹریلوی ڈیوڈ وارنر کی طرز کا خطرناک اوپنر قرار دیا گیا، انہوں نے چیمپئنز ٹرافی کے بعد کمزور ٹیموں کے خلاف چند اچھی اننگز بھی کھیلیں لیکن پھر دیگر ٹیموںنے ان کی تکنیک میں خامیوں کو ہدف بنانا شروع کردیا۔
اس موقع پر کوچز اور خود فخرزمان کی بھی ذمہ داری تھی کہ اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا،ڈیوڈ وارنر بھی کیریئر کے آغاز میں پاکستانی اوپنر جیسی مشکلات کا شکار ہوئے لیکن مسلسل محنت سے اپنی تکنیکی خامیوں کو دور کیا اور نہ صرف ون ڈے بلکہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی خود کو قابل بھروسہ بیٹسمین ثابت کیا، حالیہ ورلڈکپ میں بھی ان کا ٹاپ سکوررز میں شمار ہورہا ہے،چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ڈومیسٹک اور اے کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے والے عابدعلی کو بطور اوپنر کھیلنے کا موقع دیا تو ڈیبیو میچ میں ہی آسٹریلیا کے خلاف سنچری بناکر اپنی اہلیت بھی ثابت کردی،ان کی تکنیک اور ٹمپرامنٹ کی بھی ہر مبصر نے تعریف کی۔
عابد علی کو ورلڈکپ سکواڈ میں شامل بھی کیا گیا لیکن بعد ازاں باہر کردیئے گئے،فخرزمان اور بھتیجے امام الحق کی جگہ خطرے میں ڈالنے کی اہلیت رکھنے والے اوپنر سرفراز کے متبادل وکٹ کیپر بھی تھے لیکن انگلینڈ کی سیر کراکے واپس بھجوادیئے گئے،ورلڈکپ میں مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنے والی تمام ٹیموں کے اوپنرز کا کردار اہم رہا، انگلش کنڈیشنز میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اچھے آغاز کے بعد قابل قدر ٹوٹل حاصل کرنے والی بیشتر ٹیموں نے فتح پائی،پاکستان اس مسئلے کا حل تلاش کرتا رہ گیا۔
فخرزمان اعتماد سے عاری دکھائی دیئے، امام الحق 8میچز میں کوئی بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے، بنگلہ دیش کے خلاف بے مقصد میچ میں سنچری بنائی، کوئی متبادل اوپنر ہی نہیں تھا کہ پاکستان ان میں سے کسی ایک کو باہر بٹھانے کا فیصلہ کرسکتا،اچھے آغاز ملنے سے ان فارم بابر اعظم پر بھی دباؤ کم ہوسکتا تھا، شاید ان کی صلاحیتیں بھی مزید نکھر کے سامنے آتیں اور ٹیم کی فتوحات کا راستہ بھی بنتا، نوجوان بیٹسمین دباؤ میں مزاحمت کرنے کے بعد رن ریٹ بہتر بنانے کے چکر میں اس طرح کے سٹروک کھیلنے پر مجبور ہوتے جو ان کے مزاج کے برعکس تھے، بہرحال مشکل وقت میں ان کی اچھی اننگز کا فائدہ اٹھانے کا موقع سینئرز گنواتے رہے۔
اس ضمن میں سب سے بڑے مجرم شعیب ملک تھے، ان کو جن میچز میں بھی موقع ملا ٹیم کی کشتی بیچ منجھدھار میں چھوڑ کر آؤٹ ہوتے رہے، اسی طرح محمد حفیظ نے بھی انگلینڈ کے خلاف میچ کے سوا ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے بجائے 20، 30رنز بناکر اہم موقع پر وکٹ گنوادی،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارٹ ٹائم بولرز کی گیندوں پر بار بار ناکام ہونے والے آل راؤنڈر نے عالمی کرکٹ میں اپنا بہترین وقت گزار لیا،ٹیم پر مزید بوجھ بننے کے بجائے انہیں خود ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرلینا چاہیے،کپتان سرفراز احمد بھی ہر چیلنج میں ناکام رہے،انہوں نے بھی ایسے مواقع پر وکٹ گنوائی جب ٹیم کو سخت ضرورت تھی۔
فیصلہ کن لمحات میں چوکے چھکے لگانا ان کے بس کی بات نہیں، لوئر آرڈر میں متعدد بار ناکام ہوچکے، سنگلز ڈبلز کیلئے موزوں تکنیک ہونے کے باوجود کپتان ٹاپ آرڈر میں کھیلنے کو تیار نہیں،پورے ورلڈکپ میں یہ بحث ختم نہیں ہوئی کہ آخر کون سی بیٹنگ پوزیشن ان کیلئے مناسب ہوگی،کسی کپتان کی ذاتی کارکردگی اچھی نہ ہو تو فیصلوں کرتے ہوئے بھی اعتماد کی کمی کا شکار ہوتا ہے، یہی چیز ٹورنامنٹ میں نظر آتی رہی،سرفراز احمد ہر ناکامی کے بعد یہ کہتے نظر آئے کہ جن سینئرز کو ڈال کر کمبی نیشن بنایا وہ بھی بہترین ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی حالانکہ میچ عمر یا تجربہ زیادہ ہونے کی وجہ سے نہیں کارکردگی کی وجہ سے جیتے جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد سینئرز نے ہر موقع پر مایوس کیا،سال بھر میں ایک، دو میچز میں پرفارمنس کی بنیاد پر کسی کھلاڑی کو سکواڈ میں برقرار رکھنے جیسے فیصلے کئے جائیں تو ٹیم کمبی نیشن نہیں بن سکتا، پاکستان کو بھی ورلڈکپ میں اسی طرح کے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا،بڑی ٹیموں کے خلاف تمام سیریز میں نظر آنے والی خامیاں آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی تھی لیکن سلیکٹرز اور مینجمنٹ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی،حسن علی کا رعب و دبدبہ ختم ہورہا تھا، اس میں پیسر کی اپنی غلفت بھی تھی کہ انہوں نے اپنی خامیاں دور کرنے پر کام نہیں کیا لیکن بولنگ کوچ اظہر محمود سوئے رہے۔
حیرت کی بات ہے کہ ورلڈکپ میں پاکستان کی جانب سے جن بولرز نے بہتر کارکردگی دکھائی،ان میں سے محمد عامر اور وہاب ریاض کو پہلے 15رکنی سکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، شاہین شاہ آفریدی کو انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے زیادہ وقت نہیں ہوا، نوجوان پیسر میں صلاحیت ہے،وہ غلطیاں کرتے ہوئے ان سے سیکھ بھی رہے ہیں، یہ سلسلہ کہیں بھی رکا تو دوسرے حسن علی بن سکتے ہیں،کسی وقت ٹرمپ کارڈ خیال کئے جانے والے شاداب خان کی صلاحیتوں کو اگر زنگ نہیں بھی لگا تو بیٹسمین ان کے حربوں کو سمجھتے جارہے ہیں، لیگ سپنر وکٹیں لینے کے بجائے رنز روکنے کی کوشش میں اپنی افادیت کم کرتے جارہے ہیں۔
قومی ٹیم کے یہ مسائل اندھوں کو بھی نظر آرہے تھے لیکن ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور ان کے من پسند معاونین کو دکھائی نہیں دیئے،حیرت کی بات ہے کہ ان اب بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان کرکٹ درست سمت میں گامزن ہے اور اگر 2سال مزید مل جائیں تو اس کو عروج تک پہنچا دیں گے،محسن خان کی سربراہی میں کرکٹ کمیٹی قیام سے اب تک مسلسل غیر فعال رہی،سابق کوچ اور چیف سلیکٹر کی جانب سے استعفیٰ دیئے جانے کے بعد اب کمیٹی کی کمان بھی پی سی بی کے ایم ڈی وسیم خان کو سونپ دی گئی ہے۔
ابھی تک مسلسل انگلینڈ کے دوروں میں مصروف رہنے والے ان صاحب کو پہلے ہی لامحدود اختیار دیئے جاچکے، گزشتہ 3سال کی کارکردگی اور ورلڈکپ کی ناکام مہم کا پوسٹ مارٹم بھی خود ہی کریں گے تو کسی غیر جانبدار رائے کا سامنے آنا ممکن نہیں،بہرحال ورلڈکپ ختم ہوا، پاکستانی شائقین کو اگلے 4سال تک سبز باغ دکھانے کا وقت دوبارہ آگیا، جھوٹی امیدوں اور بے بنیاد دعوؤں کی عادی قوم ایک بار پھر صبر اور دعائیں کرے گی،اللہ نہ کرے کہ آئندہ ورلڈکپ میں بھی ہم یہ حساب کتاب لگاتے نظر آئیں کہ فلاں جیت جائے اور فلاں ہار جائے تو گرین شرٹس کی سیمی فائنل میں جگہ پکی۔