سعید اجمل نے زمبابوے کیخلاف سیریز میں نئے ٹیلنٹ کو آزمانے کا مشورہ دیدیا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سعید اجمل نے کہا کہ زمبابوے سے ہوم سیریز میں ڈومیسٹک کرکٹ کے عمدہ پرفارمرز کو موقع دیا جائے تو مستقبل کیلیے کرکٹرز کی کھیپ تیار کرنے میں مدد ملے گی، عماد وسیم کو آرام دے کر کسی نئے بولر کو موقع دیں، ٹیم میں 50 فیصد سے زائد نوجوان کرکٹرز شامل کیے جائیں، ون ڈے میچز میں تجربہ کار کھلاڑیوں کو بھی اسکواڈ میں شامل کرنا چاہیے۔ اس سے جونیئرز کو سینئرز سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔
انھوں نے کہا کہ قومی ٹیم کا دورئہ انگلینڈ شروع ہونے سے قبل مجھ سمیت کئی سابق کرکٹرز نے کہا تھا کہ ہم شاید ایک، آدھ میچ جیت سکیں اور ایسا ہی ہوا، ٹیسٹ سیریز میں پاکستان نے ایک اننگز میں اچھی بولنگ اور بیٹنگ کی، پہلے ٹیسٹ میں جیتنے کا موقع تھا جو ہاتھ سے نکل گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ یاسر شاہ اور محمد عباس کے سوا تجربہ کار بولر ہی نہیں تھے۔
سعید اجمل نے کہا کہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں تو نوجوان بولرز چل سکتے ہیں لیکن ٹیسٹ میچز تجربہ کار بولرز ہی جتواتے ہیں،شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ میں سے صرف ایک نوجوان بولر کو شامل کرنا چاہیے، دونوں پیسرزآگے چل کر بہتر ہو جائیں گے، ابھی تو ڈومیسٹک سیزن بھی ایک، ایک ہی کھیلے ہیں، انھوں نے کہا کہ ٹوئنٹی20 اسکواڈ متوازن تھا اس لیے پاکستان ایک میچ جیت بھی گیا، مجموعی طور پر دورئہ انگلینڈ میں ٹیم کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔
ایک سوال پر سعید اجمل نے کہا کہ بیشتر کرکٹرز ڈپارٹمنٹس سے ہی آگے آئے، میں وزیراعظم عمران خان کے ویژن سے متفق ہوں لیکن تبدیلی کا عمل مکمل کرنے کے لیے 2 یا 3سال دینے چاہیے تھے، کھلاڑیوں کا بہت نقصان ہو گیا، کئی 12 یا 13 سال سے کھیل رہے تھے۔ ریٹائرمنٹ قریب تھی کہ ملازمت چھن گئی،اگر مستقل ملازم کھلاڑیوں کو فارغ نہیں کیا گیا تو انھیں اب ڈیسک پر جا کر کام کرنے کا کہا جا رہا ہے، میرے اندازے کے مطابق 80فیصد کرکٹرز اب کھیل نہیں رہے یا دلبرداشتہ ہو کر چھوڑنے والے ہیں۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ مصباح الحق و دیگر نے اگر ڈپارٹمنٹل کرکٹرز کے حق میں بات کرنے کے لیے وزیراعظم اور پیٹرن انچیف پی سی بی سے ملاقات کی تو اس میں کوئی برائی نہیں تھی، سابق کپتان کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے والے کئی دوست بھی ہیڈکوچ وچیف سلیکٹر کو اپنے مسائل کے بارے میں فون کرتے ہوں گے، میرے خیال میں پی سی بی کو اس ملاقات کا نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا۔