blogs
English

فواد جیسا سلوک کسی اور سے نہ کرنا

ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن مستقبل سے مایوس ہو کر بہت سے نوجوان کرکٹ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں

فواد جیسا سلوک کسی اور سے نہ کرنا فوٹو: اے ایف پی

’’ارے عابد علی نے اتنی جلدی سنچری کیسے بنا لی، یہ تو بہت سست بیٹنگ کر رہا تھا‘‘

ٹی وی پر میچ دیکھتے ہوئے جب میرے بھائی نے یہ بات کہی تو میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ سنچری نہیں ابھی تو صرف ففٹی ہی ہوئی ہے، تم شاید جشن سے کنفیوز ہو گئے،دراصل عابد نے ہیلمٹ اتار کر بیٹ ایسے لہرایا تھا جیسے کوئی بڑا اعزاز حاصل کر لیا ہو، ڈریسنگ روم میں موجود ساتھی کھلاڑیوں نے بھی انھیں نشستوں سے اٹھ کر داد دی تھی،پہلے زمانے میں کیا موجودہ دور میں بھی نصف سنچری پر غیرملکی کرکٹرز ایسا نہیں کرتے  کیونکہ ان کے دماغ میں بڑی اننگز کا خیال ہوتا ہے، وہ 50 کو100 اور پھر اس سے بھی آگے کا سوچتے ہیں جیسے اپنے فواد عالم ہیں، ایشیا کا کوئی اور ایسا بیٹسمین نہیں ہے جو ابتدائی چاروں ففٹیز کو سنچریوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا ہو۔

ان کا ہر شاٹ ایسا لگتا ہے جیسے گیند میں اپنے کیرئیر کے10 سال ضائع کرنے والوں کی شکل نظر آ رہی ہے،ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں پاکستان کو مڈل آرڈر میں قابل بھروسہ بیٹسمین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے شکر ہے ٹیسٹ میں فواد موجود ہیں،ہرارے ٹیسٹ میں بابر اعظم کے پہلی گیند پر آؤٹ ہونے سے ٹیم دباؤ کا شکار نظر آ رہی تھی مگر فواد کی شاندار سنچری نے خطرہ ٹال دیا، جب بھی وہ کوئی بڑی اننگز کھیلیں یہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ کوئی کیسے اتنے زبردست کھلاڑی کو منتخب نہیں کر سکتا تھا، ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے ڈھیر لگانے پر بھی وہ سائیڈ لائن رہے۔

آج کل کے دور میں کسی پلیئر کو ایک، دو سیریز سے باہر کر دیں تو وہ ریٹائرمنٹ کا سوچنے لگتا ہے مگر فواد نجانے کس مٹی کا بنا ہوا ہے کبھی ہار ہی نہیں مانتا، انضمام  الحق اپنی یوٹیوب ویڈیوز میں جب ان کی تعریفیں کریں تو وقت کے ستم پر ہنسی بھی آتی ہے، جیسے وہ ایک مشہور فلمی ڈائیلاگ ہے ناں کہ ’’جج صاحب میرے 20سال کون واپس لوٹائے گا‘‘ بیچارے فواد تو اپنے 10 سال کا حساب بھی کسی سے نہیں مانگ سکتے۔

پہلے بھی وہ کوئی شکوہ نہیں کرتے تھے، میں اکثر انٹرویوز کے بعد  کہتا کہ کسی کا نام نہیں لیا تو وہ جواب دیتے کہ ’’مجھے ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اللہ دیکھ رہا ہے، وہی انصاف کرے گا‘‘، بعد میں ایسا ہی ہوا انھیں محنت کا پھل ملا اور اب وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے بلکہ کامیابی کی نئی منازل طے کر رہے ہیں، مصباح الحق پر عموما تنقید ہی ہوتی رہتی ہے لیکن بطور چیف سلیکٹر وہی فواد عالم کو قومی ٹیم میں واپس لائے اور ابتدائی اننگز میں ناکامی کے بعد بھی اعتماد برقرار رکھا جس کا کریڈٹ انھیں جاتا ہے۔

اگر ماضی میں فواد عالم پر بھی اسد شفیق اور اظہر علی کی طرح اعتماد کیا جاتا تو آج وہ ان دونوں سے کافی آگے نکل چکے ہوتے  خیر جس کے نصیب میں جو لکھا ہو وہی ملتا ہے، اب ان کی جتنی کرکٹ باقی ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، ویسے فواد کی فٹنس قابل رشک ہے اور وہ مزید کئی برس قومی ٹیم کے کام آ سکتے ہیں،ایک فواد عالم نہیں نجانے کتنے باصلاحیت کرکٹرز ارباب اختیار کی پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، انضمام الحق نے بطور چیف سلیکٹر اپنے بھتیجے امام الحق کو جتنا پروموٹ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔

کاش وہ دیگر باصلاحیت کرکٹرز کو بھی اپنا رشتہ دار سمجھ کر ہی مواقع دیتے رہتے،موجودہ اسکواڈ میں ہی شامل تابش خان بھی ناانصافیوں کی جیتی جاگتی مثال ہیں، طویل عرصے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے اور تقریبا 600 فرسٹ کلاس وکٹیں لینے کے بعد انھیں قومی اسکواڈ میں شامل ہونے کا موقع ملا لیکن اب تک کھیلنے سے محروم ہیں، اگلے ٹیسٹ میں اگر ٹیسٹ کیپ نہ ملی تو شاید پھر اسکواڈ سے بھی باہر ہو جائیں گے، لوگ میڈیا کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن یقین مانیے اگر صحافی ان باصلاحیت کرکٹرز کے لیے آواز نہ اٹھائیں تو ان کو کبھی موقع نہ ملے،عابد علی بھی اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔

چیف سلیکٹر محمد وسیم کو تابش خان کے بارے میں ان کے سابقہ بیانات یاد دلائے  گئے تو انھیں مجبورا پیسر کو منتخب کرنا پڑا ،حالانکہ یہ سچ ہے کہ تابش اب اپنے کیرئیر کے عروج سے گذر چکے، حالیہ سیزنز میں ان کی کارکردگی بھی اتنی غیر معمولی نہیں تھی، البتہ اتنے عرصے ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے کے بعد وہ ٹیسٹ کیپ کے توحقدار ضرور ہیں،ہمیں ایسا سسٹم بنانا ہوگا جب حقدار کرکٹر کو ٹیم میں شامل کرانے کیلیے میڈیا کو شور نہیں مچانا پڑے،بدقسمتی سے ماضی کی طرح موجودہ دور میں بھی سلیکشن کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔

محمد وسیم ایپل کا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور فخر سے میڈیا کے سامنے اسکواڈز کا اعلان ہوتا ہے، وہ سوشل میڈیا سے بھی بیحد متاثر ہیں جہاں پی ایس ایل کی ایک،دو پرفارمنس پر بھی کسی کھلاڑی کو آسمان پر بٹھا دیا جاتا ہے،خیر ابھی یہ ایڈوانٹیج ہے کہ کوویڈ کی وجہ سے بڑے اسکواڈز منتخب ہو رہے ہیں، اس سے نوجوانوں کو سیر کرنے کا موقع مل جاتا ہے، ٹیم مینجمنٹ کسی انہونی سے بچنے کیلیے زیادہ خطرات مول نہیں لیتی جس کی وجہ سے کئی نئے پلیئرز کو کھیلنے کا موقع ہی نہیں ملتا، زمبابوے سے ٹی ٹوئنٹی سیریز کا اسکواڈ آپ نے دیکھ لیا جس کے توازن کا یہ حال تھا کہ آخری میچ میں چار اوپنرز اور دو وکٹ کیپرز کو کھلانا پڑا،حقدار کرکٹرز کو اگر وقت پر مواقع ملتے رہیں تو ہماری ٹیم خوب آگے جائے گی۔

ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن مستقبل سے مایوس ہو کر بہت سے نوجوان کرکٹ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ہر کوئی فواد عالم کی طرح ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہوتا جو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں سہہ کر ثابت قدم رہے، گو کہ انھوں نے پلان بی کے طور پر ڈراموں میں کام تو شروع کر دیا ہے،خیر امید ہے کہ وہ کرکٹ میں اتنے مصروف رہیں گے کہ ایکٹنگ کا وقت ہی نہیں ملے گا، یہ شوق ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پورا ہو سکتا ہے، قومی کرکٹ سیٹ اپ میں بھی بہت سے ایکٹرز موجود ہیں تب تک  ان سے اداکاری کے اسرارورموز ہی سیکھ لیں،فی الحال تو ہم چاہتے ہیں کہ فواد ایسے ہی عمدہ پرفارم کرتے رہیں ، ان کی ہر اننگز انھیں نظرانداز کرنے والوں کو منہ چھپانے پر مجبور ضرور کر رہی ہو گی۔

کرکٹ پاکستان اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔