blogs
English

پی سی بی، کرکٹرز اور میڈیا

حقائق جاننے کیلیے روایتی میڈیا کا سہارا ہی لینا پڑتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اب  میڈیا کو ماضی جیسی اہمیت نہیں دی جاتی

پی سی بی، کرکٹرز اور میڈیا فوٹو: پی سی بی

جب سے سوشل میڈیا آیا عوام کے ذہنوں میں بعض حلقوں نے یہ باتیں ڈال دیں کہ میڈیا بکاؤ ہے، صحافی لفافے لیتے ہیں، ان کو خوب مراعات اور پلاٹس ملتے ہیں،اس سے صحافیوں کی اہمیت کم ہو گئی، عوام کو جو بتایا گیا وہ اسی کو سچ سمجھنے لگے، حالانکہ اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو بیشتر میڈیا پرسنزکی مالی حالت بہت اچھی نہیں ہو گی، جس طرح بعض کرکٹرز فکسنگ کرتے ہیں، بعض ڈاکٹرز فوائد کے لیے غیرضروری ٹیسٹ اور مہنگی ادویات تجویز کرتے ہیں،بعض سیاستدان کرپشن کرتے ہیں۔

زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے،صحافت کا پیشہ بھی اس سے محفوظ نہیں لیکن جب ہم تمام کرکٹرز کو فکسرز نہیں سمجھتے، تمام ڈاکٹرزیا پولیس والوں کو کرپٹ نہیں سمجھتے ویسا ہی میڈیا کے ساتھ بھی کرنا چاہیے،البتہ افسوس ایسا ہوتا نہیں ہے،سوشل میڈیا پر کبھی کسی معروف شخصیت کی موت کی جعلی خبر وائرل ہوتی ہے تو کبھی کسی کی شادی کے حوالے سے جعلی خبریں چلائی جاتی ہیں، آپ اس پر مکمل بھروسہ نہیں کر سکتے۔

حقائق جاننے کیلیے روایتی میڈیا کا سہارا ہی لینا پڑتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اب  میڈیا کو ماضی جیسی اہمیت نہیں دی جاتی، دیگر شعبوں کی طرح کرکٹ میں بھی ایسا ہی ہے، سابق چیئرمین نجم سیٹھی کے دور میں یہ سلسلہ شروع ہوا جب سوشل میڈیا  کو ترجیح دی گئی، ایک خاتون صحافی نے مجھے بتایا تھا کہ جب انھوں نے کسی انٹرویو کیلیے بورڈ سے رابطہ کیا تو پہلے پوچھا گیا تھا کہ آپ کے سوشل میڈیا پر فالوورز کتنے ہیں، میں سیٹھی صاحب کا احسان مند  ہوں کہ ان کے ورکنگ اسٹائل نے مجھے بھی سوشل میڈیا پر آنے کی تحریک دلائی۔

اس وقت ٹویٹر پر میرے 360 فالوورز تھے شکر ہے اب ایک لاکھ سے زائد ہو گئے، یوں میں بھی شاید اب صحافی کہلا سکتا ہوں، سابقہ دور میں باقاعدہ سوشل میڈیا سیل قائم  تھا جس کا کام مخالفین کی ٹرولنگ تھا، جو صاحب اسے چلاتے تھے وہ اب بھی پی سی بی کا حصہ ہیں، مجھے یاد ہے  ایک دن ایک بورڈ آفیشل سے میں نے کہا کہ سوشل میڈیا پرلوگ کچھ بھی کہہ دیتے ہیں اس لیے میں ایکٹیو نہیں ہوں۔

انھوں نے شاید اس کا  ذکر کسی سے کردیا اگلے دن مجھے اتنے منفی پیغامات ملے تھے کہ بتا نہیں سکتا، موجودہ پی سی بی حکام میڈیا کو کچھ نہیں سمجھتے، انھیں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پوسٹ ہی کافی ہیں حالانکہ پاکستان میں کتنے فیصد افراد کو انٹرنیٹ کی سہولت حاصل ہوگی، اب بنی بنائی پریس ریلیز، ویڈیوز وغیرہ بھیج دی جاتی ہیں، کچھ ہم صحافیوں کی بھی کمزوری ہے کہ سہل پسندی کا شکار ہوگئے اور بنی بنائی چیزوں پر انحصار کرنے لگے، اس کا فائدہ بورڈ کو ہوا اور صرف بیانیہ ہی سامنے آنے لگا،تحقیقاتی صحافت تو اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

مجھے تو لگتا ہے کہ  موجودہ بورڈ حکام چند برس اور رہے تو اپنا ٹی وی چینل کھولنے کے ساتھ اخبار بھی نکال لیں گے، پہلے کھلاڑی میڈیا کیلیے دستیاب ہوتے تھے اب اگر بورڈ حکام آپ سے خوش ہیں تو اجازت دے دیں گے ورنہ  ’’سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ‘‘ کرکٹرز انٹرویوز نہیں دیتے کا جواب ہی ملتا ہے، اب تو ڈومیسٹک کرکٹرز کو بھی معاہدے کی زنجیر میں قید کر لیا گیا ہے، کنٹرول میڈیا پالیسی کا بورڈ کو تو فائدہ ہوا مگر ہمارے ملک میں اسپورٹس صحافت کا معیار گر گیا۔

میں تو وحیدخان اور سمیع الحسن برنی جیسے بہترین اسپورٹس رپورٹرز کی خبریں پڑھ کر اس فیلڈ میں آیا تھا اب نئے صحافیوں کے پاس کوئی رول ماڈل موجود نہیں،پہلے بڑے بڑے اسکینڈل میڈیا سامنے لاتا تھا اب کہیں بھائی ناراض نہ ہو جائیں کا سوچ کر کوئی خبر بھی ہو تو اسے دبا دیا جاتا ہے۔

گھوڑا گھاس سے دوستی کرے تو کھائے گا کیا یہ  محاورہ شاید ہم لوگ بھول گئے ہیں،شاہد اختر ہاشمی جیسے صحافیوں کو آج بھی وزیر اعظم عمران خان تک بطور اسپورٹس رپورٹر جانتے ہیں،موجودہ کھلاڑیوں کو تو ’’ٹویٹر اسٹارز‘‘ ہی بڑے صحافی لگتے ہیں درحقیقت ان کا تو صحافت سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا، بابر اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ میڈیا سے بات کرنے کا اعتماد نہیں رکھتے، اس کا قصوروار بورڈ ہی تو ہے، آپ نے کپتان کو کتنا اعتماد دیا؟ رضاراشد نے ان کو ایسا سمجھایا ہے کہ وہ تو کسی کے عید مبارک کے پیغام کا جواب دیتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔

’’فلاں صحافی ایسا ہے اس سے دور رہو، یہ خطرناک بندہ ہے زیادہ بات نہ کرو‘‘ ایسی باتیں بورڈ کے بعض لوگوں نے ان کرکٹرز کے ذہنوں میں بھر دی ہیں، حالانکہ ایسا ہے نہیں سب کی ہی کوشش اور خواہش پاکستان کرکٹ کی بہتری ہی ہے، انھیں دشمن نہیں دوست بنا کر پیش کرنا چاہیے، شاید پی سی بی کو لگتا ہو کہ کھلاڑی میڈیا کے قریب ہوئے تو کہیں خبریں لیک نہ ہونے لگیں تو اس سلسلے کو تو آپ کسی صورت نہیں روک سکتے، مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ ہر میچ شروع ہونے سے ایک گھنٹے پہلے بعض صحافیوں کو پلیئنگ الیون کون بناتا ہے، ایسا کوئی کرکٹر تو نہیں کرتا،ہر پریس ریلیز گروپس میں آنے سے کچھ لمحات پہلے کیسے بعض لوگوں کو فراہم کر دی جاتی ہیں، یقیناً بورڈ والے ہی ایسا کرتے ہیں، کرکٹ ہمارے ملک کا سب سے بڑا کھیل ہے۔

اسے میڈیا کے ذریعے ہی مزید فروغ دیں، تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی نے تمام معاملات اپنے کنٹرول میں لینے چاہے وہ ناکام رہا، ہر دور میں بعض سرپھرے موجود ہوتے ہیں جو اپنا کام نہیں روکتے، اب بھی ایسا ہی ہے،پی سی بی کو چاہیے کہ پلیئرز اور میڈیا کے تعلقات بہتر بنائے، صحافیوں کو کام کرنے کی آزادی دیں، اگر کوئی بیچارہ یوٹیوب چینل سے دال روٹی کا بندوبست کررہا ہے تو اسے شکایات سے نہ ڈرائیں،اس کے کام سے ملکی کرکٹ کو فائدہ ہی ہوگا نقصان نہیں،موجودہ دور میں ویسے ہی میڈیا مسائل کا شکار ہے، کم از کم کھیلوں میں تو ایسا نہ ہونے دیں، آپ میڈیا کو کام کرنے کی جتنی اسپیس دیں گے اتنا ہی اچھا رہے گا، چانس تو کم ہے لیکن شاید پی سی بی اپنی موجودہ میڈیا پالیسز پر نظرثانی کر لے، امید پر ہی دنیا قائم ہے۔

کرکٹ پاکستان اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔