اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ لاہور قلندرز نے پی ایس ایل6میں اپنے مداحوں کو سخت مایوس کیا
’’یہ لو چیک اور کاغذات بس اب جلدی سے دستخط کر دو، تمہارے ہوٹل پر میرا دل آ گیا ہے، اب میں اسے ہر حال میں خریدنا چاہتا ہوں‘‘
ایک بااثر اور طاقتور شخص ہوٹل کے مالک سے کہتا ہے۔
’’مگر میں اسے بیچنا نہیں چاہتا‘‘اسے دوسری جانب سے جواب ملتا ہے۔
’’اچھا یہ بات ہے اب میں تم کو مزا چکھاتا ہوں‘‘
حال ہی میں ’’فیس بک‘‘ پر میں نے ایک فلم کی یہ کلپ دیکھی،چونکہ ہم کرکٹ والے لوگ ہیں تو میں نے اسے فوراً اسی کے ساتھ ریلیٹ کرلیا، مجھے لاہور قلندرز اور شعیب اختر یاد آ گئے، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم 2سال سے پی ایس ایل میں اختتامی نمبرز پراختتام کر رہی ہے، راولپنڈی ایکسپریس کی اپنی جڑواں اسلام آباد یونائیٹڈکی ٹیم گذشتہ برس چھٹے نمبر پر رہی تھی، مگر انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ اسلام آباد والوں سے ٹیم نہیں سنبھل رہی مجھے بیچ دیں میں اس کا نام اسلام آباد ایکسپریس رکھ دوں گا۔
یا کوئٹہ کے معین خان کو کوچنگ نہیں آتی، ٹیم مجھے دیں میں اسے کوئٹہ ایکسپریس بنا کر مقدر بدل دوں گا۔ البتہ لاہور قلندرز پر ان کا دل آیا ہوا ہے، پی ایس ایل میں پہلے 5 اور پھر 6 ٹیمیں ہوئیں، تمام مالکان کا انداز مختلف ہے، زیادہ تر فرنچائزز پورے سال سوئے رہتی ہیں مگر ایونٹ شروع ہونے سے ایک ماہ پہلے انھیں یاد آتا ہے کہ سوشل میڈیا پر شور مچانا ہے یا دیگر سرگرمیاں کرنی ہیں۔
اس کا یہ نقصان ہوا کہ ٹائٹل جیتنے کے باوجود کئی ٹیمیں اتنا بڑا برانڈ نہیں بن سکیں،دوسری جانب سب کو حیرت ہوتی تھی کہ لاہور قلندرز کی ٹیم اختتامی نمبرز پر رہنے کے باوجود مقبولیت میں اتنے آگے کیوں ہے،شعیب اختر بھی اس شہرت سے متاثر ہو گئے، انھوں نے سوچا کہ ساتویں ٹیم کی شمولیت کا انتظار کرنے کے بجائے کیوں نہ بنے بنائے برانڈ پر ہاتھ صاف کر لوں، انھوں نے اونرز کو ’’فون‘‘ بھی کروائے اور آفرز بھی کیں۔
خیالی دنیا میں رہنے والے سابق پیسر نے ’’لاہور ایکسپریس‘‘ نام بھی سوچ لیا، جب بات نہ بنی تو ٹیم کے پیچھے لگ گئے اور میڈیا میں اونرز، کوچ وغیرہ کے خلاف بیان بازی شروع کر دی، شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ڈر کر لاہوروالے بھی ان کو ٹیم دے دیں گے، قلندرز اپنے حال میں خوش رہتے ہیں،کوئی پیار سے مانگے تو سب کچھ نچھاور کردیتے ہیں غصہ دکھائے تو پھرآخری حد تک جاتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ لاہور قلندرز نے پی ایس ایل6میں اپنے مداحوں کو سخت مایوس کیا، کئی روز تک ہم ’’ایکسپریس نیوز‘‘ پر ’’جوش جگا دے‘‘ کے نام سے پی ایس ایل پر ڈیلی شو کرتے رہے، اس کی میزبان ارملہ حسن اور عمران خان موسمی کرکٹ اینکر نہیں بلکہ انھیں کھیل کی بڑی معلومات ہیں، ارملہ کی پسندیدہ ٹیم لاہور قلندرز ہی تھی اور عمران آخر تک اس کی شکست پر ان سے مزاحیہ نوک جھونک کرتے رہے، اسی طرح ٹیم کے لاکھوں مداح ہیں۔
اس سال تو سب فتح کا جشن منانے کی تیاریاں کیے بیٹھے تھے لیکن ٹیم پہلے راؤنڈ کی مہمان ثابت ہوئی،کچھ دن پہلے تک پوائنٹس ٹیبل پر قلندرزسرفہرست اور ماہرین پلے آف میں جانے والی دیگر تین سائیڈز کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے مگر اچانک حالات تبدیل ہو گئے،لاہورقلندرز کو لاہور قلندرز نے ہی ہرا دیا،گذشتہ برس فائنل کھیلنے والی ٹیم اس بار پھر پرانی ڈگر پر لوٹ آئی اور لیگ کا پانچویں پوزیشن پر اختتام کیا، ایسا کیا غلط ہوا کہ یہ حالت ہو گئی، اگر ہم جائزہ لیں تو بیٹنگ لائن کا اہم کردار نظر آتا ہے۔
کراچی سے جب ایونٹ ابوظبی منتقل ہوا تو لاہور قلندرز نے پہلے اسلام آباد یونائیٹڈ اور پھر پشاور زلمی کو شکست دی،دونوں میں راشد خان سمیت غیر ملکی کرکٹرز کا کردار اہم رہا، مگر اس کے بعد لگاتار 4میچز میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز جسے سب ہرا رہے تھے اس نے بھی قلندرز کو مات دے دی،اسلام آباد سے دوسرے میچ میں 20 رنز پر 5 وکٹیں لینے کے بعد 152 رنز بنوا دیے، پھر جب 3 وکٹ پر 88رنز بنا کر فتح یقینی لگنے لگی تو124 پر پوری ٹیم ڈھیر ہو گئی،کوئٹہ سے میچ میں 66رنز پر7کھلاڑی آؤٹ ہوئے اور لیٹ آرڈرنے کچھ لاج رکھی،کراچی کنگز کیخلاف92رنز پر آدھی ٹیم پویلین لوٹ گئی،ملتان سلطانز سے آخری میچ میں تو اننگز کا89 رنز پر اختتام ہو گیا،ابوظبی کے6میچز میں محمد حفیظ نے15کی اوسط سے 90 رنز بنائے۔
اس دوران صرف 2بار اسکور ڈبل فیگر میں داخل ہوا،اتنے ہی میچز میں فخرزمان نے16 کی اوسط سے98 رنز اسکور کیے، ان دونوں لوکل اسٹارز پر ٹیم کا بہت انحصار تھا،آؤٹ آف فارم ہونے کا بیحد نقصان ہوا،زیادہ ڈاٹ بالز سے دیگر کھلاڑیوں پر بھی دباؤ بڑھا،کپتان سہیل اختر نے 10 میچز میں 14 کی اوسط سے 149رنز بنائے،40 رنز کی اننگز سب سے بڑی رہی، ان کا کردار ٹیم میں ’’نان پلئینگ کپتان‘‘ جیسا بنتا جا رہا ہے، بین ڈنک بھی سابقہ کارکردگی نہ دہرا سکے، سنگاپور کے ٹم ڈیوڈ کی کارکردگی بہتر رہی، البتہ آغا سلمان اورذیشان اشرف جیسے نوجوانوں نے مایوس کیا، بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی،راشد خان اور جیمز فالکرکی پرفارمنس اچھی رہی،البتہ شاہین اور حارث رؤف میں ایروگینس زیادہ آ گئی ہے، فاسٹ بولرز کیلیے جارحیت دکھانا ضروری ہے لیکن اسے ایک حد میں رہنا چاہیے۔
حارث کی بولنگ بھی ایونٹ میں زیادہ متاثرکن نہیں رہی،نوجوان احمد دانیال کو ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے، لاہور قلندرز کی اچھی بات نئے کرکٹرز کو پروموٹ کرنا ہے،البتہ اس ایونٹ میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ باصلاحیت ہونے کے باوجود ینگسٹرز پرفارم نہ کر سکے،شاید بڑی کرکٹ کا دباؤ جھیلنے میں انھیں مشکل ہوئی، قلندرز نے ورلڈکلاس ہائی پرفارمنس سینٹر بنایاہے، وہاں نوجوان کرکٹرز کی ذہنی پختگی پر مزید کام کرنا ہوگا، ناکامیوں پرسب کو قربانی کے بکرے کی تلاش ہوتی ہے۔
قلندرز میں عاقب جاوید کی صورت میں آسان ہدف موجود ہے، اب بھی انھیں نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں، حالانکہ اسی عاقب جاوید نے گذشتہ برس ٹیم کو فائنل میں پہنچایا اور رواں برس بھی ابتدا میں بہتر پرفارمنس سامنے آئی،قلندرز کو جتنا اعتماد عاقب پر ہے مجھے نہیں لگتا کہ وہ انھیں تبدیل کریں گے، البتہ اسٹار کرکٹرز کو ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پرفارم کرنا ہوگا، اب تو باقی پانچوں ٹیمیں ٹائٹل جیت چکیں، قلندرز کے پرستاروں کا غصہ جائز ہے، اگلے ایونٹ کی ابھی سے ایسی تیاری کریں کہ ٹرافی ہاتھ آئے،قلندرز اب لوگوں کو مایوس نہ کرنا ورنہ شعیب اختر جیسے مزید موقع پرست سامنے آ جائیں گے۔
کرکٹ پاکستان اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔