blogs
English

بابر کی جراتمندی اور تابش کا ڈیبیو

کوئی انھیں ’’اعزازی ٹیسٹ کرکٹر‘‘ قرار دے رہا ہے تو کسی نے پہلے ہی اوور میں وکٹ کو امپائر کی مہربانی قرار دے دیا

بابر کی جراتمندی اور تابش کا ڈیبیو فوٹو: پی سی بی

’’میں جانتا ہوں آپ لوگ تابش خان کو کیوں اتنا زیادہ سپورٹ کرتے ہیں،خیر آپ کی جو مرضی مگر میرے خیال میں اسے ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھلانا چاہیے تھی، میں نے ٹویٹرپر بھی یہ کہا تھا لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیا شاید ڈر گئے یا کوئی دلیل نہیں تھی، ہاہاہا‘‘

ایک صحافی دوست سے میری فون پر بات ہو رہی تھی، انھوں نے جب یہ کہا تومیں نے انھیں جواب دیا کہ میری آج تک تابش سے کوئی ملاقات نہ ہی فون پر گفتگو ہوئی ہے،البتہ میری رائے کے مطابق وہ قومی ٹیم میں شمولیت کے حقدارتھے اس لیے حق میں آواز اٹھائی، رہی بات ٹویٹر کی تو آپ سمیت میرے دوست جانتے ہیں کہ میں سوشل میڈیا پر کسی بحث میں نہیں پڑتا، جنھیں جانتا ہوں ان سے براہ راست بات کرسکتا ہوں دنیا کو کیوں اپنی دوستانہ تکرارسے لطف اندوز ہونے کا موقع دوں۔

جنھیں نہیں جانتا انھیں جتنا بھی سمجھا لوں وہ نہیں سمجھ سکیں گے،خیر تابش کے چکر میں ہم کیوں لڑیں وہ ٹیسٹ کھیل چکے اب جو بھی کر لیں یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی، اور سناؤ کیا چل رہا ہے، اسی کے ساتھ ہماری گفتگو کا موضوع تو تبدیل ہو گیا لیکن میں سوچنے لگا کہ تابش خان کو کیا بھارت سے لا کر ٹیسٹ کیپ دی گئی یا وہ بورڈ کی کسی اعلیٰ شخصیت کا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے قومی ٹیم میں آئے جوبعض حلقوں کی جانب سے اتنا شور مچا ہوا ہے۔

کوئی انھیں ’’اعزازی ٹیسٹ کرکٹر‘‘ قرار دے رہا ہے تو کسی نے پہلے ہی اوور میں وکٹ کو امپائر کی مہربانی قرار دے دیا،تابش کو فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے شاید 19 سال ہو گئے، یہ ہمارے سسٹم کی ناکامی ہے کہ ایک بولر مسلسل ڈومیسٹک مقابلوں میں عمدہ پرفارمنس کے باوجود قومی اسکواڈ کا حصہ نہیں بن سکا،598 وکٹیں لینے والے بولر کے حوالے سے محمد وسیم کو جب ان کی پرانی ویڈیوز دکھائی گئیں تو وہ تنقید کے ڈر سے انھیں منتخب کرنے پر مجبور ہوگئے، ورنہ لوگ یہی کہتے کہ یہ ٹی وی پر بیٹھ کر تو بڑا تابش کیلیے آوازیں اٹھاتا تھا اب چیف سلیکٹر بنا تو خود ٹیم میں نہیں رکھا، اس میں کوئی رائے نہیں کہ تابش اپنے عروج کا دور گذارچکے لیکن جب انھیں چیف سلیکٹر نے قومی اسکواڈ میں شامل کیا تو اس سے وہ ٹیسٹ کیپ کے حقدار بن گئے۔

میں بابر اعظم کو داد دیتا ہوں جنھوں نے انھیں کھلانے کیلیے اپنی اتھارٹی منوائی اور جراتمندی دکھائی، اگر زمبابوے کیخلاف وہ نہ کھیل پاتے تو پھر نام کے ساتھ کبھی ٹیسٹ کرکٹر نہیں لگ پاتا،ہم فرسٹ کلاس میں کارکردگی کے بغیر لوگوں کو ٹیسٹ کرکٹ کھلا دیتے ہیں انھوں نے تو اچھا پرفارم کیا تھا،مصباح الحق 42،43 سال کی عمر تک کھیلتے رہے، حفیظ بھی 40 سال سے زائد کے ہو گئے اور قومی ٹیم میں شامل ہیں ایسے میں اگر 36 سالہ تابش خان کا ڈیبیو ہو گیا تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑا،ویسے بھی اس کمزور ترین زمبابوین ٹیم کے خلاف تو ہمیں اپنی بی ٹیم میدان میں اتارنا چاہیے تھی۔

چھوٹی ٹیمیں مختصر طرز میں کبھی کبھی اچھا پرفارم کر جاتی ہیں جیسے حالیہ سیریز کے ایک ٹی ٹوئنٹی میں زمبابوے نے پاکستان کو شکست بھی دی،مگر 5 روزہ میچ جس میں حریف کی 20 وکٹیں لینے کے ساتھ خود بھی بڑا اسکور بنانا ہوتا ہے وہاں ان سے نہیں کھیلا جاتا، جب پہلا ٹیسٹ 3 دن میں ختم ہوا تو سب جان گئے کہ زمبابوین ٹیم میں دم خم نہیں ہے، ایسے میں دوسرے ٹیسٹ میں اگر بینچ اسٹرینتھ کو آزمایا جاتا تو شاید میچ پانچویں روز تک چلا جاتا جیت تو پھر بھی جاتے، مگرٹیم مینجمنٹ خوف کا شکارتھی اس لیے مضبوط ترین الیون ہی میدان میں اتاری، اب وہ بیچارے نئے کھلاڑی کہاں کھیلیں گے؟ اگر آپ انھیں زمبابوے کیخلاف آزمانے کا حوصلہ نہیں رکھتے تو پھر کس کے خلاف کھلائیں گے؟دیگر بڑی ٹیموں کے مقابلوں میں پاکستان کے زمبابوے سے زیادہ میچز ہوتے ہیں۔

اس سے پلیئرز کے ریکارڈز تو بہتر ہو جاتے ہیں مگر ٹیم کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا، پی سی بی کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ بڑی ٹیموں سے میچز رکھے،یا اگر زمبابوے، آئرلینڈ یا افغانستان سے میچز ہوں تو بعض سینئرز کو آرام کرا دیں،اگر آپ کو مستقبل کی اچھی ٹیم بنانی ہے تو حال میں بھی بعض جراتمندانہ فیصلے کرنا پڑیں گے،یہ ٹھیک ہے کہ ہماری ٹیم بھی بعض اوقات دیارغیر میں اچھا پرفارم نہیں کر پاتی مگر پھر بھی ہمارا زمبابوے جیسا حال تو نہیں ہوتا،اس سیریز میں اوپنرز پہلے ٹیسٹ میں اچھا آغاز فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔

عابد علی اور عمران بٹ کی جوڑی اس سے پہلے ناکام ثابت ہوئی تھی مگر ان پر ٹیم مینجمنٹ نے اعتماد برقرار رکھا، عابد پر انگلیاں اٹھنے لگی تھیں مگر انھوں نے ڈبل سنچری سے فارم میں واپسی کا اعلان کردیا ہے، بابر اعظم بجھے بجھے سے دکھائی دیے، محمد رضوان بھی بڑی اننگز نہ کھیل سکے، مگر یہ دونوں ہماری ٹیم کے اہم ترین رکن ہیں،امید ہے کہ بڑی ٹیموں کیخلاف اچھا پرفارم کرتے دکھائی دیں گے،بابر بطور کپتان تو کامیاب دکھائی دیے ہیں،فواد عالم پہلے اور اظہر علی دوسرے ٹیسٹ میں سنچری بنانے میں کامیاب رہے۔

حسن علی کی جب سے قومی ٹیم میں واپسی ہوئی وہ مسلسل بہترین کھیل پیش کر رہے ہیں،وہ اس بار14وکٹیں لے کر مین آف دی سیریز ایوارڈ کے حقدار قرار پائے، انھوں نے ثابت کر دکھایا کہ ڈومیسٹک سیزن سے کسی پلیئر کی کارکردگی میں بہت زیادہ بہتری آ سکتی ہے، شاہین شاہ آفریدی  اور نعمان علی نے بھی متاثر کن بولنگ کی، نعمان نے 97 رنز کی اننگز سے بیٹنگ صلاحیتوں کا بھی اظہار کیا،مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ٹیسٹ سیریز میں ٹیم کی کارکردگی اچھی رہی البتہ ٹی ٹوئنٹی میں بہت بہتری کی ضرورت ہے،رواں سال ورلڈکپ بھی ہونا ہے اس سے پہلے ہی خامیوں پر قابو پانا ہوگا۔

چیئرمین احسان مانی شکستوں کے بعد نظر نہیں آتے مگر زمبابوے سے جیتنے پر بھی ان کا لمباچوڑا بیان سامنے آ جاتا ہے، سی ای او وسیم خان سے زیادہ ’’ورک فرام ہوم‘‘ کی پالیسی کا کسی نے فائدہ نہیں اٹھایا، وہ لاہور کے بجائے اپنے برطانیہ والے گھر میں ہی زیادہ وقت گذار رہے ہیں، کمزور ٹیم کو ہرانے کا جشن منانے کے بجائے پی سی بی کے بڑوں کو مستقبل کی پلاننگ کرنی چاہیے تاکہ ورلڈکپ سمیت دیگر اہم مقابلوں میں مثبت نتائج سامنے آ سکیں۔

کرکٹ پاکستان اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔