featured
English

ٹیسٹ ٹیم کی کارکردگی میں مستقل مزاجی کا خواب

نوجوان کرکٹرز کی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا ہوگا

ٹیسٹ ٹیم کی کارکردگی میں مستقل مزاجی کا خواب فوٹو: اے ایف پی

پاکستان ٹیم نے ناتجربہ کاری کے باوجود لارڈز ٹیسٹ میں بلند حوصلے کے ساتھ برتری کی جنگ لڑی اور سیریز کا فاتحانہ آغاز کیا۔

جوئے روٹ کے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ غلط ثابت ہوا اور بولرز نے عمدہ کارکردگی سے فتح کی بنیاد رکھ دی،گرین کیپس کی جوابی اننگز میں شاداب خان اور فہیم اشرف کی عمدہ شراکت نے لیڈ دلائی جو فیصلہ کن ثابت ہوئی،اگر اس موقع پر دونوں نوجوان کرکٹرز ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کرتے تو پاکستان کو چوتھی اننگز میں بڑے ہدف کا تعاقب کرنا پڑتا اور فتح کا مشن مکمل کرنے میں دشواری ہوتی۔

لیڈز میں مہمان کپتان سرفراز احمد بھی کنڈیشنز سے دھوکہ کھا گئے اور میدان میں دھوپ نکلی دیکھ کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا،نئی گیند اور تازہ پچ پر بہتر ٹوٹل حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ ٹاپ آرڈر کریز پر قیام طویل کرتے ہوئے کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کے بعد سٹروکس کھیلے لیکن اوپنرز ہی گھبراہٹ کا شکار نظر آئے۔

پہلے ٹیسٹ میں شکست سے سبق سیکھتے ہوئے انگلش بولرز نے اپنی لائن اور لینتھ پر نظرثانی کرنے کے ساتھ پاکستانی بیٹسمینوں کو بھی بھانپ لیا،ابتدا میں جیمز اینڈرسن اور سٹورٹ براڈ کی بولنگ سے نظر آرہا تھا کہ میزبانوں نے نئے امتحان کے لیے اچھا ہوم ورک کرلیا ہے جبکہ پاکستان لارڈز کے میدان میں آزمائے جانے والے پلان سے باہر نہیں نکل سکا۔

پاکستان کے لیے یہ صورتحال اس لئے بھی مشکل تھی کہ اظہر علی کے ساتھ اننگز کا آغاز امام الحق کو کرنا تھا، چیف سلیکٹر انضمام الحق کا بھتیجا ہونے کے ساتھ کیریئر کے ابتدائی دور اور میزبان بولرز کی کنڈیشنز سمیت تہرے دباؤ کا شکار نوجوان اوپنر ایل بی ڈبلیو دیئے جانے کے بعد ایک بار ریویو کی مدد سے وکٹ بچانے کے باوجود اپنی اننگز کو طول نہ دے سکے اور اسی اوور میں انہوں سلپ میں کیچ دیا۔

یہ بلاشبہ ایک غیر معمولی دباؤ کا شکار ایک ناتجربہ کار بیٹسمین کا غیر ضروری سٹروک تھا، باہر جاتی گیند کو سلپ فیلڈر کے ہاتھوں میں دیکر پویلین واپس لوٹ جانے والے اوپنر باصلاحیت ضرور ہیں لیکن ایک پختہ کار ٹیسٹ بیٹسمین کے طور پر پہچان بنانے کے لیے وقت درکار ہوگا،اوپنرز کے تجربات میں تمام ملکوں کو پیچھے چھوڑ جانے والے پاکستان کے پاس ایک آسان راستہ یہی ہے کہ اگلی سیریز میں ریزرو میں موجود سمیع اسلم پر توجہ مرکوز کرلے لیکن یہ امام الحق کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

اچھی ٹیم بنانے کے لیے فی الحال نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں مواقع دینا ہونگے،لیڈز میں امام الحق کے ساتھ موجود اظہر علی میزبان ملک کی کنڈیشنز اور تجربہ کار بولرز کا سامنا کرنے کا چیلنج خود قبول کرتے شاید صورتحال مختلف ہوتی لیکن میزبان ٹیم نے لارڈز کے پلان سے ہٹ کر جارحانہ بولنگ کرتے ہوئے ان کو بھی دباؤ کا شکار کردیا،تجربہ کار ہونے کے باوجود اظہر علی کی کریز پر اچھل کود ثابت کررہی تھی کہ اپنی صلاحیتوں پر یقین سے زیادہ ان پر انگلش بولرز کا خوف سوار ہوگیا ہے۔

حارث سہیل میں وکٹ پر کھڑا ہونے کی ٹمپرامنٹ اور اچھے سٹروکس بھی ہیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اچھے خاصے سیٹ ہونے کے بعد جب ان سے بڑی اننگز کی توقعات وابستہ ہوجاتی ہیں تو بڑی غلطی کرتے ہوئے وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں، اسد شفیق کا تجربہ بھی کسی وقت اچانک بیکار ثابت ہوجاتا ہے، لیڈز میں ایک گیند ذرا سے گھومی تو انہوں نے سلپ میں کیچ دے دیا۔

ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل عمدہ کارکردگی دکھانے والے عثمان صلاح الدین کو مصباح الحق کا جانشین خیال کیا جارہا ہے، انجرڈ بابر اعظم کی جگہ موقع ملنے پر ان کے لیے ہیرو بننے کا موقع تھا لیکن اس کا فائدہ نہ اٹھاسکے، آل راؤنڈر فہیم اشرف سے ہر بار ٹیم کے ٹوٹل میں حصہ ڈالنے کی توقع نہیں کی جاسکتی، انگلش بولرز نے ان کو بھی آسان شکار بنالیا۔

ٹاپ اور مڈل آرڈر میں کوئی بڑی اننگز سامنے نہ آنے کے باوجود پاکستان نے اگر 174رنز بنالئے تو اس کا کریڈٹ شاداب خان کو جاتا ہے جنہوں نے ایک پختہ کار بیٹسمین کا کردار ادا کرتے ہوئے ٹیل اینڈرز کو سکور بنانے کا موقع دیا، حسن علی کی جارحانہ اننگز نے بھی بیٹنگ کی لاج رکھی، اگر دونوں بے خوف ہوکر نہ کھیلتے تو 150رنز بھی ممکن نظر نہیں آرہے تھے۔

تجربہ کار جیمز اینڈرسن اور سٹورٹ براڈ کے ساتھ پہلا ٹیسٹ باہر بیٹھ کر دیکھنے والے کرس ووئیکس نے بھی ٹیم میں واپسی پر نپی تلی بولنگ کرتے ہوئے پاکستان کا بڑے سکورکا خواب پورا نہیں ہونے دیا۔

انگلینڈ کی جوابی بیٹنگ میں مہمان بولرز کا پلان بھی کمزور نظر آیا، انگلش پیسرز کی لائن اور لینتھ ایک سبق تھی لیکن بیٹسمینوںکی طرح بولرز بھی لارڈز میں کامیاب حکمت عملی کے سحر سے نہیں نکل پائے،شکست کے بعد انگلینڈ نے نئے معرکے کے لیے نئی صف بندی کی تھی تو مہمانوں کو بھی مختلف انداز میں سوچتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنا تھا۔

محمد عباس کے ہاتھوں کئی بیٹسمینوں کے ایل بی ڈبلیو ہونے پر انگلش بیٹسمین کریز میں تھوڑا آگے کھڑے ہونے کی پالیسی اپناتے ہوئے وکٹیں بچانے میں کامیاب رہے لیکن پاکستانی بولرز نے اپنی لائن اور لینتھ تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی،بہرحال ٹیسٹ کرکٹ میں کپتان سرفراز احمد ٹیم دونوں ناآموز ہیں، دونوں سے غلطیاں ہوں تو نشاندہی ضرور کرنا چاہیے، تاہم ان مواقع پر سخت تنقید کرنا درست نہیں ہوگا۔

آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچز میں ابھی تک کپتان کی بیٹنگ فارم بھی باعث تشویش ہے،انہیں خود کو قیادت کا حق ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہوگا، لیڈز میں ان کی جانب سے نصف سنچری ٹیل اینڈرز کے حوصلے مزید جوان کرسکتی تھی، ماضی میں کپتان اس طرح کے مواقع پر کئی کارآمد اننگز کھیل چکے ہیں، امید ہے کہ فارم میں واپس آکر دیگر کے لیے مثال بنیں گے۔

دوسری جانب ابھی تک دورہ انگلینڈ میں سامنے آنے والا ایک مثبت پہلو نوجوانوں کی جانب سے مشکل حالات میں کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے،خاص طور پر شاداب خان نے پراعتماد بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو مستقبل کا ایک اچھا آل راؤنڈر ثابت کردیا ہے،کسی بھی 19سال کے کرکٹر کا انگلش کنڈیشنز میں میزبان بولرز کے سامنے ڈٹ جانا پاکستان کرکٹ کے لیے نیک شگون ہے۔

انہوں نے بغیر کسی خوف کے بیٹنگ کرتے ہوئے گیندوں کو میرٹ پر کھیلا،شاداب خان نے ابھی تک 3ٹیسٹ میچ کھیلے اور 3ففٹیز بناکر بیٹسمینوں کو سبق دیا ہے کہ اچھی بیٹنگ کے لیے گھبراہٹ کو ڈریسنگ روم میں چھوڑ کر گیندوں کو میرٹ پر کھیلنا ضروری ہوتا ہے، ٹیم کی کارکردگی میں مستقل مزاجی لانے کے لیے تو وقت درکار ہوگا لیکن شاداب خان جیسے نوجوان کرکٹرز نے ایک امید ضرور دلادی ہے کہ پاکستان میں ایسا ٹیلنٹ ضرور موجود ہے جس کی کھوج لگائی جائے تو ایک سے زیادہ قومی ٹیمیں تشکیل دی جاسکتی ہیں۔