بیٹسمین لیڈز میں بُری طرح ڈھیراور تین دن میں ٹیسٹ ختم ہو گیا
کہتے ہیں انگلینڈ کے موسم کا کوئی بھروسہ نہیں،موسم گرم میں بھی سردی پڑ سکتی ہے، بارش تو کبھی بھی برس پڑتی ہے، اس معاملے میں ہم بھی کسی سے کم نہیں۔
انگلینڈ کے موسم تو ہماری بیٹنگ کا کوئی بھروسہ نہیں، پہلے ٹیسٹ میں بیٹسمینوں نے بہتر پرفارم کر کے بولرز کی محنت کو رائیگاں نہ جانے دیا، سوا تین دن میں ملنے والی فتح نے شائقین کی توقعات آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیں، بیٹنگ لائن کی سابقہ بے وفائیوں کو فراموش کر کے ہم نے سوچا کہ دوسرا ٹیسٹ بھی باآسانی جیت لیں گے اور انگلینڈ میں سیریز 2-0 سے اپنے نام کرنے کا موقع ملے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔
بیٹسمین لیڈز میں بُری طرح ڈھیراور تین دن میں ٹیسٹ ختم ہو گیا،اس سے ایک بات ظاہر ہو گئی کہ بہتری کا سفر شروع ضرور ہوا لیکن کارکردگی میں تسلسل لانے کیلیے ابھی بہت محنت کرنا پڑے گی، ایک ایسی سیریز جس کی ایوریجز میں فاسٹ بولر محمد عامر 44 کی اوسط سے رنز بنا کر سرفہرست ہوں اس میں بیٹسمینوں کی کارکردگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق نے سب کی مخالفت کے باوجود اپنے بھتیجے امام الحق کو ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل کیا مگر وہ 18.66 کی اوسط سے ہی رنز بنا سکے، جس ٹیم کا اوپنر چار اننگز میں ایک ففٹی بھی نہ بنا سکے اس کا تو اﷲ ہی حافظ ہے،اظہر علی اب ٹیم کے اہم ترین بیٹسمین ہیں، مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد توقع تھی کہ وہ بیٹنگ لائن کا بوجھ اٹھا لیںگے لیکن بدقسمتی سے خود توقعات کے بوجھ تلے دب گئے،16.75 کی ایوریج دیکھ کر خود اظہر علی کوبھی شرم آ رہی ہوگی۔
12،12،صفر اور 20 کی اوپننگ شراکتوں سے یہ بات ظاہر ہو چکی کہ اس شعبے میں تبدیلی کی ضرورت ہے، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کیخلاف نئے اوپنر کو لانا ہو گا، اظہر کیلیے بھی نمبر تین یا چار ہی مناسب لگتا ہے، حارث سہیل نے لارڈز میں اچھی بیٹنگ کی تھی مگر ایک بات واضح ہے کہ وہ 30،40 رنز کے بعد ریلکس کر جاتے ہیں ،پھر کوئی غیرضروری شاٹ اننگز کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں تو ٹھیک مگر ٹیسٹ میں بڑی اننگز درکار ہوتی ہیں،حارث 114 رنز کے ساتھ بہرحال سیریز کے ٹاپ بیٹسمین ضرور ثابت ہوئے، اسد شفیق دو ٹیسٹ میں صرف ایک ہی نصف سنچری بنا سکے، ان پر اس سیریز میں بطور سینئر بیٹسمین خاصی ذمہ داری عائد تھی مگر وہ بھی اظہر کی طرح توقعات پر پورا نہ اتر سکے،عثمان صلاح الدین نے ابھی پہلا ہی ٹیسٹ کھیلا لہذا ان کی صلاحیتوں کو پرکھنا درست نہیں۔
دوسری اننگز میں وہ بہتر کھیلتے کھیلتے وکٹ گنوا بیٹھے، سلیکٹرز کو کم از کم مزید ایک سیریز میں انھیں موقع دینا چاہیے، وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگا چکے امید ہے کہ ٹیسٹ میں بھی عمدہ پرفارم کریں گے، سیریز میں سب سے زیادہ دو ففٹیز اسپنر شاداب خان نے بنائیں،ان میں اچھا آل راؤنڈر بننے کی مکمل صلاحیت موجود ہے، البتہ اسپن بولنگ سے حریف بیٹسمینوں کو پریشان کرنے کیلیے خاصی محنت درکار ہوگی۔
حالیہ سیریز میں 49 کی اوسط سے وہ صرف تین ہی وکٹیں لے سکے، ٹیم کو دونوں میچز میں یاسر شاہ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی،کپتان سرفراز احمد 10.33 کی اوسط سے 31 رنز ہی بنا سکے،ان پردباؤ بڑھنے لگا ہے، بطور کپتان انھیں دوسروں کیلیے مثال بننا ہوگا، ایک بات واضح ہے کہ ٹیم کیلیے زیادہ سوچنے کی وجہ سے وہ اپنے کھیل پر اتنی توجہ نہیں دے رہے، خدانخواستہ کسی سیریز میں شکست ہوئی تو سرفراز مشکل میں پڑ سکتے ہیں اس لیے اپنی بیٹنگ پر بھی توجہ دینا چاہیے۔
دوسرے ٹیسٹ میں ناکامی پر سرفراز کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے کہ انھوں نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیوں کیا، سب سے پہلے تو میں واضح کر دوں کہ پلیئنگ الیون میں کون ہوگا، ٹاس جیت کر کیا کرنا ہے، کون سا بیٹسمین کس نمبر پر آئے گا ، یہ سب ایسے فیصلے ہیں جو کوئی کپتان اکیلا نہیں کر سکتا، کوچ ودیگر کی مشاورت بھی اس میں شامل ہوتی ہے، لہذا ہار کا ملبہ اکیلے کپتان پر نہ ڈالیں ، ہم نے پہلا ٹیسٹ جیتا اور سیریز برابر کی اس پرداد بھی دینی چاہیے، ورنہ ہر کوئی یہی توقع کر رہا تھا کہ دونوں میچز میں بدترین شکست مقدر بنے گی۔
ہار جیت کھیل کا حصہ ہے بس افسوس اس بات کا ہے کہ وہ ٹیم جو پہلا ٹیسٹ باآسانی جیت گئی، دوسرے میں اس نے فائٹ کیے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیے، اس سے واضح ہے کہ توازن درست نہیں تھا، البتہ پیس بولرز کی کارکردگی اچھی رہی، محمد عباس کو انگلش کاؤنٹی میچز کھیل کرکنڈیشنز سے ہم آہنگی کا فائدہ ہوا اور وہ 10 وکٹوں کے ساتھ مین آف دی سیریز ایوارڈ پانے میں کامیاب رہے،محمد عامر نے بھی بعض اچھے اسپیلز کیے، البتہ فہیم اشرف اور حسن علی کو ابھی ٹیسٹ سے ہم آہنگ ہونے کیلیے مزید محنت درکار ہے۔
سلیکشن کمیٹی کو ہر ماہ بھاری تنخواہ ملتی ہے لیکن پی ایس ایل کے بعد ان کا کام آسان ہو گیا ہے، ٹی ٹوئنٹی کے نمایاں کرکٹرز کو ٹیسٹ میں بھی منتخب کر لیا جاتا ہے، چونکہ میچز ٹی وی پر دکھائے گئے ہوتے ہیں لہذا شائقین بھی ان کے نام سے واقف ہوتے ہیں، یقیناً وہ پلیئرز باصلاحیت ہیں مگر ٹیسٹ میں آزمانے سے قبل کم از کم ایک ، دو مکمل فرسٹ کلاس سیزنز کھیلنے دینا چاہئیں تاکہ ان میں کچھ ٹمپرامنٹ تو آئے، اگر ایسا نہ ہوا تو آئندہ بھی مشکل پیش آتی رہے گی۔
اب نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے بھی اہم سیریز ہونی ہیں، اوپننگ اور اسپن سمیت کئی مسائل اس سے قبل حل کرنا ہوں گے، ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے والے نظر انداز شدہ بیٹسمینوں کو بھی مواقع دیں تاکہ مثبت نتائج سامنے آ سکیں، امید ہے چیف سلیکٹر گھر کی دہلیز سے نکل کر ملکی گراؤنڈز میں پرفارم کرنے والوں کو بھی ایک نظر دیکھیں گے،اسی صورت پرفارمنس میں بہتری ممکن ہے۔