نیوزی لینڈ میں قومی کرکٹرز کو چند روزکی قید تنہائی کے بعد آزادی حاصل ہوگی جب کہ انگلینڈ کے برخلاف وہاں 14روزبعدگھومنے پھرنے کی اجازت مل جائیگی۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم22 اور 23 نومبر کی درمیانی شب3 بجے نیوزی لینڈ روانہ ہوگی،اس سے قبل ہفتے کو تمام کھلاڑیوں اورآفیشلزکا کورونا ٹیسٹ ہونا ہے،اگر کسی کا نتیجہ مثبت رہا تو وہ اسکواڈ سے باہرہو جائے گا۔
دورہ انگلینڈ سے قبل بعض کرکٹرز و آفیشلز کی رپورٹس مثبت آئی تھیں مگر بعد میں وہ کلیئرہو کر جاتے رہے، البتہ نیوزی لینڈکاکوویڈ قانون کسی متاثرہ کرکٹرکو بعد میں بھی جانے کی اجازت نہیں دیتا،اس لیے ہفتے کو ٹیسٹنگ کے بعد کھلاڑی بے چینی سے منفی رپورٹ کا انتظار کریں گے۔
کورونا فری نیوزی لینڈ کسی قسم کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہے، بورڈ نے پی ایس ایل اور بعد میں بھی پلیئرز کی ٹیسٹنگ رپورٹس طلب کی تھیں، پلان کے مطابق قومی ٹیم آکلینڈ پہنچنے کے بعد 3 دن مکمل آئسولیشن میں رہے گی۔ اس دوران کمرے سے باہر نکلنے اور ایک دوسرے سے ملاقات کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔
ایک ٹیسٹ کلیئر کرنے کے بعد چوتھے روز 15،15 افراد کے گروپس بنائے جائیں گے، ان میں پلیئرز اور آفیشلز دونوں شامل ہوں گے، یہ چاروں گروپس اپنے مخصوص ایریاز میں رہیں گے، انھیں صرف اپنے گروپ کے افراد سے ہی ملاقات کی اجازت ہو گی،اس دوران ٹریننگ بھی الگ وقت میں کریں گے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل ویسٹ انڈین کرکٹرز نے اس پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے گروپ کو کھانے پر جوائن کیا تھا، جس پر انھیں مزید آئسولیشن اختیار کرنا پڑی اور کوچ نے معافی بھی مانگی تھی، پاکستانی کرکٹرز و آفیشلز11 روز بعد ٹیسٹ میں کلیئرنس پر یکجا ہو جائیں گے۔ اس کے بعد انھیں ساتھ رہنے اور ٹریننگ کی اجازت مل جائے گی۔
انگلینڈ میں کھلاڑی صرف ہوٹل اور اسٹیڈیم تک ہی محدود رہے تھے مگر نیوزی لینڈ میں وہ آزادانہ باہر گھوم پھر بھی سکیں گے، کراؤڈ بھی میچز میں آئے گا، کھلاڑیوں کی فیملیز کو ساتھ جانے کی اجازت نہیں، بائیو ببل میں رہنے پر بعض کرکٹرز نے اعتراض کیا تھا مگرپاکستان کرکٹ بورڈ کا کسی ماہر نفسیات کے ساتھ سیشن کرانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
پی سی بی ترجمان کے مطابق کھلاڑی اب اس ماحول کے عادی ہو چکے، نیوزی لینڈ میں انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، وہاں ماحول ویسے ہی ریلکس ہے۔