ڈومیسٹک نظام سے متاثرہ پلیئرز کی ملازمتیں ختم ہونے کا افسوس ہے، سابق کپتان
کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ظہیر عباس نے کہا کہ سابق اسٹارکی بطور کپتان کارکردگی اچھی رہی لیکن کوچ اور چیف سلیکٹر کی دوہری ذمہ داری ان کے اختیارات کو بہت وسیع کررہی ہے، ایک طرح سے وہ بورڈ کے چیئرمین بن گئے،ان کو تین برس تک ذمہ داری سونپنا سمجھ سے بالاتر ہے، یہ عرصہ 2 برس پر محیط ہونا چاہیے، کارکردگی کی بنیاد پر معیاد میں توسیع ہوتی رہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ پی سی بی نے رواں سال ڈومیسٹک کرکٹ نظام میں تبدیلی توکردی اب دیکھنا ہوگا کہ اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں، پہلے ڈومیسٹک کرکٹ میں کراچی اورلاہور جیسے بڑے شہروں کی 2، 2 ٹیمیں بھی شرکت کیاکرتی تھیں لیکن اب صرف 6 ٹیمیں ہی ہیں،اس پرمجھے بہت تعجب ہوا، دیکھتے ہیں کہ یہ نظام کس طرح چلتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس سے کھلاڑی متاثرہی ہوں گے۔
ظہیر عباس نے کہا کہ ڈپارٹمنٹل ٹیمیں بندکرنے سے پلیئرز کی ملازمتیں بھی ختم ہوگئیں جس کا افسوس ہے، ماضی میں اچھے کھلاڑی ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی بدولت ہی سامنے آئے،مالی استحکام پر ان کی کارکردگی مزید بہتر ہوجاتی تھی۔
انھوں نے کہا کہ نئے نظام کے تحت پی سی بی کی جانب سے کھلاڑیوں کو تنخواہیں پُرکشش ضرور ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں زیادہ کھلاڑیوں کواہلیت دکھانے کے مواقع میسر ہونے چاہیئں۔
فاسٹ بولرز کی چار روزہ کرکٹ سے اکتاہٹ اور جان چھڑانے کے رحجان پر ظہیرعباس نے کہا کہ اس ضمن میں پی سی بی کو سخت قوائد وضوابط بنانے ہوں گے، پلیئرزکو بتایا جائے کہ ملک کی نمائندگی کیلیے انھیں ٹیسٹ کرکٹ میں شرکت کا پابند ہونا پڑے گا، ساتھ فیس میں بھی اضافہ کیا جائے۔
ظہیر عباس نے کہا کہ بورڈ کا سرفرازکوایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی ٹیموںکا ہی کپتان بنانے کا فیصلہ درست ہے، میں نے پہلے بھی انھیں سمجھایا تھا کہ وہ صرف ان دونوں طرز ہی کی کرکٹ پر توجہ دیں، تینوں طرز میں کپتانی ان کیلیے مشکل ہو جائے گی، بابر اعظم بہترین کھلاڑی ہے اور وہ اچھا کپتان ثابت ہوگا۔