کرکٹرز اور آفیشلز سے رابطے کی کوشش کرنے والے8 عادی مجرموں کے نام حکومت کو بتا سکتا ہوں
آئی سی سی آفیشل نے بھارتی کرکٹ کو کرپشن کا گڑھ قرار دے دیا،اینٹی کرپشن یونٹ کے ایک اہم رکن اسٹیو رچرڈسن کا کہنا ہے کہ زیر تفتیش 50 کیسز میں سے بیشتر کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں،ان8 عادی مجرموں کے نام حکومت کو بتا سکتا ہوں جو کرکٹرز اور آفیشلز کے ساتھ مسلسل رابطے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
قانون سازی کیے بغیر جوئے کی حوصلہ شکنی آسان نہیں، بی سی سی آئی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ اجیت سنگھ نے بھی چشم کشا حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ 30 سے 40 ہزار کروڑ روپے کا جوا ہوتا ہے، کھلاڑی، معاون اسٹاف، آفیشلز اور فرنچائز مالکان سب بکیز کے نشانے پر ہوتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایک ویڈیو سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کے کوآرڈینیٹر آف انویسٹی گیشن اسٹیو رچرڈسن نے کہاکہ اگرچہ حال ہی میں کوئی ہائی پروفائل بھارتی کرکٹر ریڈار میں نہیں آیا مگر نچلی سطح پر بکیز اور کھلاڑی مسلسل سرگرم ہیں، براہ راست نشر ہونے والی چھوٹی ڈومیسٹک لیگز کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، کھلاڑی تو اس سلسلے کی آخری کڑی ہیں، کرپشن کے پیچھے منظم گروہ باہر بیٹھ کر ڈوریاں ہلاتا ہے۔
اس وقت 50 کیس زیر تفتیش ہیں،ان میں سے بیشتر کے تانے بانے بھارت سے ہی ملتے ہیں، حکومت کو ایسے 8 افراد کے نام بتا سکتا ہوں جو عادی مجرم اور کھلاڑیوں کے ساتھ مسلسل رابطے کی کوشش میں رہتے ہیں، انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے سبب کھیلوں کی سرگرمیاں معطل اور مالی مشکلات کا شکار کھلاڑی بکیز کے نرغے میں آسانی سے آ سکتے ہیں۔
جوئے کے خلاف قانون سازی کیے بغیر کرپشن کی حوصلہ شکنی آسان نہیں۔ پی سی سی آئی اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ اجیت سنگھ نے کہا کہ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اداروں کو کرپٹ عناصر کیخلاف بھرپور کارروائی کا موقع نہیں ملتا، کرناٹکا لیگ کا معاملہ ایک مثال ہے،سٹے بازی کی ویب سائٹس فساد کی جڑ ہیں، ایک اندازے کے مطابق بھارت میں کھیلوں پر30 سے 40 ہزار کروڑ تک کا جوا ہوتا ہے، کھلاڑی، معاون اسٹاف، آفیشلز اور فرنچائز مالکان سب بکیز کے نشانے پر ہوتے ہیں۔