news
English

ڈیڈ پچز کے بریڈ مین

ڈیوڈوارنر نے پہلی اننگز میں پاکستانی بولنگ اٹیک کو تہس نہس کر دیا جبکہ بولنگ میں ناتھن لائن نے پاکستانی بیٹنگ لائن کی دھجیاں اڑادیں۔

ڈیڈ پچز کے بریڈ مین

’’یار آپ لوگوں کو جب جیتنا ہی نہیں ہے تو ٹیم یہاں کیوں بھیجتے ہیں؟‘‘ 
پرتھ سے جب میرے دوست ذیشان نے فون پر غصے میں مجھ سے یہ کہا تو میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے، اگر ہم 59 سال سے آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز نہیں جیتے تو کیا ضروری ہے کہ اب بھی یہی ہوگا۔؟ 
کیا پتا اگلے دونوں میچز میں بہتر نتائج سامنے  آجائیں، میری یہ بات سن کر ذیشان کا غصہ بڑھ گیا اور جواب دیا کہ ’’آپ لکھ لیں اگلی سیریز سے پہلے پھر یہی ہیڈ لائنز ہوں گی کہ پاکستان 64 سال سے آسٹریلیا میں نہیں جیتا ٹیم اس بار نئی تاریخ رقم کر دے گی‘‘ میں نے یہ سن کر خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا، ذیشان جیسے سینکڑوں پاکستانی جب کبھی آسٹریلیا میں میچ ہو تو اسٹیڈیم جاتے ہیں مگر جب 89 پر ٹیم ڈھیر ہو اور 360رنز سے شکست ہو جائے تو ان کے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ 
ماضی میں تو آسٹریلیا کے سابق کرکٹرز نے ایسی آوازیں بھی بلند کی ہیں کہ پاکستان کبھی یہاں اچھا کھیل پیش نہیں کرتا انھیں نہ بلایا کریں، ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے کھلاڑی موجود نہیں جو آسٹریلیا میں جاکر عمدہ پرفارم کرسکیں، مسئلہ سلیکشن سمیت دیگرمسائل کا ہے، درست کمبی نیشن بھی تشکیل نہیں دیا جاتا، کھلاڑی باؤنسی پچز پر کھیلنے کے عادی نہیں،ڈیڈ پچز پرقائد اعظم ٹرافی میں رنزبناکرخود کو سرڈان بریڈمین سمجھنے لگتے ہیں۔ 
بورڈ میں کوئی تبدیلی ہو تو کوچز کو بھی گھر بھیج دیا جاتا ہے، فیصلوں میں تسلسل نہیں نظر آتا،محمد حفیظ کو ٹیم ڈائریکٹربنایا گیا،غیراعلانیہ ہیڈ کوچ بھی وہی ہیں،ورلڈکپ 2023 میں شکست پر مکی آرتھر نے کہا تھا کہ اسٹیڈیم میں ’’دل دل پاکستان‘‘ نغمہ نہیں چلایا گیا۔ 
اب حفیظ نے کہہ دیا کہ پرائم منسٹر الیون سے میچ میں پچ بالکل فلیٹ تھی، آپ سچ بتائیں کیا آسٹریلوی ٹیم پاکستان آئے گی تو ہم اسے اسپن پچ پر تیاری کرائیں گے؟ ہر کوئی اپنی قوت کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتا ہے آسٹریلیا نے بھی یہی کیا، حفیظ کی باتیں سن کر یہی لگ رہا تھا کہ پرتھ کا متوقع نتیجہ ذہن میں رکھ کر تاویل تیار کی جا رہی ہے، سب انھیں پروفیسر کہتے ہیں، اگر آپ اپنے آپ کو سب سے ذہین سمجھیں تو بڑی غلطیاں بھی کر جاتے ہیں، حفیظ نے بھی ایسا ہی کیا۔ 
انھوں نے پہلے ٹیسٹ میں کسی اسپنر کو منتخب نہ کیا، آل راؤنڈرز پر انحصار کیا گیا، میرے ایک سابق کولیگ نعیم الرحمان اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں آل راؤنڈر اسے قرار دیا جاتا ہے جو نہ رنز بنائے نہ وکٹیں لے، فہیم اشرف کی کارکردگی دیکھ کر یہ بات بالکل درست لگتی ہے، ان کی سلیکشن پر ہی سوال اٹھتے ہیں، قائد اعظم ٹرافی کے بولرز میں وہ16 اور بیٹرز میں 13ویں نمبر پر رہے،پہلے بھی کوئی ایسی کارکردگی نہیں دکھائی کہ آنکھ بند کر کے سلیکشن کر لی جاتی، البتہ اگر آپ ماضی کی کچھ باتوں کا جائزہ لیں تو اس فیصلے کی وجہ پتا چل جائے گی۔ 
اس کے علاوہ بھی بعض ایسے فیصلے ہوئے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ سفارشی کلچر اب بھی برقرار ہے، ہم سب حارث رؤف کو برا بھلا کہہ رہے تھے لیکن اگر وہ آسٹریلیا سے سیریز کے لیے دستیاب ہوتے تو کیا خرم شہزاد اور عامر جمال کو چانس مل پاتا؟ 
حارث جیسا ایک ایسا کھلاڑی جس نے برسوں سے ریڈ بال کرکٹ نہیں کھیلی وہ ڈومیسٹک پرفارمرز پر فوقیت پا جاتا،شکر ہے ایسا نہ ہوا، پرتھ میں بدترین شکست کا واحد مثبت پہلو ان دونوں پیسرز کی اچھی کارکردگی ہی ہے، وہاب ریاض چیف سلیکٹر تو بن گئے لیکن انھیں اپنے  قدم زمین پر رکھنے چاہئیں۔ 
یہ پاکستان ہے یہاں انضمام الحق جیسے سابق عظیم کھلاڑی کو گھر بھیج دیا جاتا ہے ان کے مقابلے میں وہاب تو اوسط درجے کے کرکٹر تھے، ویسے مجھے شان مسعود پر حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے اتنی مشکل سیریز کے لیے قیادت کی ذمہ داری کیسے قبول کر لی،شائقین ویسے ہی انھیں پسند نہیں کرتے اس تاریخی ہار کے بعد اب انہیں مزید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 
آئیڈیل صورتحال یہ ہوتی کہ بابر اعظم ہی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سنبھالے رہتے مگر ان کے مشیر پس منظر میں رہ کر پاکستان کرکٹ کو چلارہے ہیں انھوں نے ایسا کرنے سے بازرکھا یوں پاکستان کو نئے کپتان پر انحصار کرنا پڑا،آسٹریلیا میں بڑے بڑے کپتان کچھ نہیں کر پائے ایسے میں ہم اب کیسے معجزے کی امید رکھ سکتے ہیں، اگر آپ کو پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کا فرق دیکھنا ہو تواوپنرز ڈیوڈ وارنر اور امام الحق کو ہی دیکھ لیں، دونوں لیفٹ ہینڈرز ہیں۔ وارنر نے پہلی اننگز میں پاکستانی بولنگ اٹیک کو تہس نہس کر دیا اور امام کی شاید کوشش تھی کہ تین دن بیٹنگ کر کے سنچری بناتے،1877 میں پہلا کرکٹ ٹیسٹ میچ کھیلا گیاتھا، اب 146 سال گزرنے کے باوجود امام اسی زمانے کی کرکٹ کھیل رہے ہیں، پہلے ہم نے ’’پاکستان وے‘‘ کی باتیں سنیں مگر وہی ماضی جیسا انداز سامنے آتا ہے، آپ اگر رنز بناتے رہیں تو فائدہ ہے ورنہ پورا دن کھیل لیں نتیجے پر کیا فرق پڑے گا، پاکستانی بیٹرز کو مثبت انداز اپنانا ہی ہوگا۔ 
عبد اللہ شفیق اور سعود شکیل کو بھی اپنی صلاحیتوں کو مشکل کنڈیشنز میں ثابت کرنا چاہیے، بابراعظم سے سب کو بڑی امیدیں تھیں کہ وہ قیادت کی ذمہ داری سے آزاد ہو کر بہترین پرفارم کریں گے مگر بدقسمتی سے ان کی فارم اچھی نہیں چل رہی، آخری7 ٹیسٹ اننگز میں وہ کوئی ففٹی نہیں بناسکے۔ 
آسٹریلیا میں ٹیم کی بہترین پرفارمنس کے لیے ضروری ہے کہ بابر بڑی اننگز کھیلیں، اسی طرح شان اور سرفراز احمد کو بھی پرفارم کرنا ہو گا، دونوں نے پہلے ٹیسٹ میں بے انتہا مایوس کیا، کوچنگ پینل میں نام تو بڑے ہیں مگر انھیں اس کام کا تجربہ نہیں،اتنی بڑی آفیشلز کی فوج آسٹریلیا گئی ہے مگر کوئی افادیت نظر نہیں آرہی،اب اگلے میچ میں پلیئنگ الیون میرٹ پر بنانا ہوگی۔ 
فہیم اسٹوکس سوری فہیم اشرف کو ڈراپ کر کے کسی اسپنر کو موقع دیں،ویسے ہی ٹیسٹ ٹیم کا ْبرا حال ہے، اس پر اب ڈومیسٹک کرکٹ کو بھی تجربات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، پریزیڈنٹ ٹرافی میں 80 اوورز کی پہلی اننگز سمیت نئی تبدیلیاں مضحکہ خیز ہیں۔ 
حفیظ کو پلیز یاد دلائیں کہ وہ اصل پروفیسر نہیں ہیں نہ ہی پاکستان کرکٹ کوئی لیبارٹری ہے جس میں نت نئے تجربات کیے جاتے رہیں، سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں تاکہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہر آنے والا شخص پاور حاصل کرکے خود کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے جس سے مسائل ہوتے ہیں، امید ہے اب میلبورن میں غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا تاکہ کچھ بہتر کارکردگی سامنے آسکے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)