پی ایس ایل کو اتنی مشکل سے پاکستان لائے ہیں، اسے دوبارہ باہر لے جانا مناسب نہیں ہوگا، 800 ملین روپے کے نقصان کا خدشہ ہے، ٹیم مالکان کا موقف
پاکستان سپر لیگ میں شامل فرنچائز مالکان نے پی ایس ایل 9 کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں منعقد کروانے کی مخالفت کردی۔
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی گورننگ کونسل کا اجلاس پیر کے روز لاہور میں ہوا۔ اجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے حکام نے بتایا کہ وہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کی وجہ سے پی ایس ایل کا 9واں ایڈیشن متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم سبھی فرنچائزز نے اجتماعی طور پر اس تجویز کو مسترد کردیا۔
ٹیم مالکان کا کہنا تھا کہ لیگ کو اتنی مشکل کے ساتھ پاکستان واپس لائے ہیں، اسے دوبارہ باہر لے جانا مناسب فیصلہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی اشارہ کیا کہ پی ایس ایل کے کسی دوسرے ملک میں انعقاد سے 800 ملین روپے کا نقصان ہوسکتا ہے۔ چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی ذکاء اشرف نے قطر کو پلان بی کے طور پر تجویز کیا، بالآخر فیصلہ ہوا کہ پی ایس ایل کا انعقاد ملک میں عام انتخابات کے بعد کرایا جائے گا۔
ایک فرنچائزمالک نے بتایا کہ یو اے ای کی لیگ پی ایس ایل کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت دے کر ایونٹ کو مضبوط کیوں بنایا جا رہا ہے؟
جواب میں پی سی بی حکام نے کہا کہ وہ اس معاملے پر غور کریں گے اور یہ بھی بتایا کہ وہ لیگز کے لیے چیف سلیکٹر انضمام الحق کی مشاورت سے این او سی پالیسی بنا رہے ہیں۔
گورننگ کونسل کے اجلاس میں پی ایس ایل کے دوران سروگیٹ اشتہارات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ 8ویں ایڈیشن میں، زیادہ تر ٹیموں کی اپنی شرٹس پر ایسی کمپنیوں کے لوگو تھے جو دراصل جوئے کے کاروبار کو فروغ دینے میں ملوث تھیں۔ ملتان سلطانز کے کپتان محمد رضوان نے کوالیفائر میچ کے دوران اپنی شرٹ پر اسپانسر لوگو کو اسٹیکرز سے ڈھانپ رکھا تھا۔ فرنچائزز اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ ایسی صورت حال دوبارہ نہ ہو جس کے لیے پی سی بی کو واضح پالیسی بنانے کا کہا گیا تھا۔
جواب میں بتایا گیا کہ پالیسی پہلے سے موجود ہے صرف ایسی کمپنیوں کو سپانسر شپ کی اجازت ہوگی جو یہ یقین دہانی کرائیں گی کہ کمپنی جوئے سٹے کے کاروبار میں ملوث نہیں ہے اور جو لوگ مطلوبہ دستاویز فراہم کرنے سے قاصر ہوں گے انہیں لیگ سے دور رکھا جائے گا۔