ان دنوں بھارتی سرزمین پر کورونا نے تباہی مچائی ہوئی ہے، اس لیے بی سی سی آئی کو آئی پی ایل یو اے ای میں منتقل کرنا پڑی
’’شارجہ میچ فکسنگ کا گڑھ ہے، آئندہ ہماری ٹیم وہاں کرکٹ نہیں کھیلے گی‘‘ یہ غالباً2000 کی بات ہے جب بھارتی حکومت کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا،ان کی ٹیم مسلسل پاکستان ٹیم سے ہار ہار کر تھک گئی تھی، گوکہ وہاں بھارتیوں کی بھی بڑی تعداد مقیم ہے مگر اس زمانے میں بھی زیادہ سپورٹ پاکستانی ٹیم کو ملتی،19 86میں چیتن شرما کو آخری گیند پر جاوید میانداد کے میچ وننگ چھکے نے شارجہ کو پاکستان کا دوسرا ہوم وینیو بنا دیا تھا، مگر پھر آہستہ آہستہ بھارت اور یو اے ای میں دوستی کی پینگیں بڑھنے لگیں، جس طرح سیاست میں ایک دوسرے کو زمین پر گھسیٹنے تک کی باتیں کرنے والے بعد میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر مسکراتے ہوئے چلتے ہیں، ایسا ہی کرکٹ میں بھی ہے۔
1984 سے2000 تک بھارتی ٹیم نے شارجہ میں بے تحاشا میچز کھیلے پھر طویل تعطل آیا،18 برس بعد یو اے ای کی سرزمین پر 2018میں بلو شرٹس ایشیا کپ کے دوران ایکشن میں نظر آئے، 2014 میں جب ملک میں انتخابات ہوئے تو بھارتی کرکٹ بورڈ کو آئی پی ایل امارات منتقل کرنا پڑی، اس دوران شارجہ میں بھی میچز ہوئے، برف پگھل کر پانی بن کے بہہ چکی اور اب وہ وقت آ گیا کہ بھارت نے جسے میچ فکسنگ کا گڑھ کہا اسے اب اپنی کرکٹ کا گھر بنا رہا ہے۔
ان دنوں بھارتی سرزمین پر کورونا نے تباہی مچائی ہوئی ہے، اس لیے بی سی سی آئی کو آئی پی ایل یو اے ای میں منتقل کرنا پڑی،اب دونوں بورڈز میں میزبانی کا معاہدہ بھی ہو گیا،اگر کورونا کی تباہ کاریاں نہ کنٹرول میں آئیں تو انگلینڈ سے آئندہ برس سیریز سمیت اگلی آئی پی ایل بھی امارات میں ہی ہو سکتی ہے، وہ بھارتی جو پاکستان کا مذاق اڑاتے تھے کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے میچز یو اے ای میں کھیلنا پڑ رہے ہیں، اب ان کے اپنے ساتھ بھی ایسا ہو رہا ہے۔
وقت کا پہیہ رخ بدلتا رہتا ہے، اب پاکستان میں حالات بہت بہتر ہو چکے، غیرملکی ٹیمیں یہاں آنے لگیں، پی ایس ایل میں بڑے بڑے غیرملکی کرکٹرز بھی آئے، بھارتی اپنی لیگ دبئی میں کرانے پر مجبور ہیں لیکن ہم اپنی لیگ کے باقی بچنے والے چار میچز ہوم گراؤنڈزپر ہی کرائیں گے، شکر ہے کورونا یہاں کافی حد تک کنٹرول ہوگیا، زمبابوے سے ہوم سیریز بھی رواں برس ہی شیڈول ہے، بھارت اگر آئی پی ایل نہ کراتا تو اسے کم از کم 3300 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا جسے امیر ترین بورڈ بھی برداشت نہ کر پاتا، غیرملکی کرکٹرز بھی ڈالرز کے چکر میں حفاظتی لباس پہنے ایسے دبئی آئے جسے کسی خلائی مشن پر جا رہے ہوں۔
بھارت کے یو اے ای میں اس بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر پاکستان کو بھی نظر رکھنی چاہیے، اماراتی کرکٹ حکام سے پی سی بی کے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے مگر گذشتہ برس ٹی ٹین لیگ کیلیے پلیئرز کو ریلیز نہ کرنے پر دراڑ سی آ گئی تھی، یو اے ای نے اس وقت ہماری مدد کی جب کوئی ہمارے ملک میں کھیلنے کیلیے نہیں آ رہا تھا، اب اچھے وقت میں بھی ہمیں انھیں نہیں چھوڑنا چاہیے، گوکہ چیئرمین بورڈ احسان مانی کئی بار کہہ چکے کہ آئندہ کوئی ہوم سیریز امارات میں نہیں کھیلیں گے میچز ہوئے تو صرف پاکستان میں ہوں گے، اس کے باوجود یو اے ای ہمارا دوست ملک ہے۔
ورلڈکپ سمیت کئی آئی سی سی ایونٹس کیلیے مل کر بڈ کرنے کے اعلان سے واضح ہے کہ دونوں بورڈز میں اب دوبارہ خوشگوار مراسم ہیں، اس سلسلے کو برقرار رکھنا ہوگا، ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اب بھارت دونوں ممالک کو دور کرنے کی پوری کوشش کرے گا،ان کی تنگ نظری تو اس بات سے واضح ہے کہ بی سی سی آئی کے سربراہ سارو گنگولی نے شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم کے اپنے دورے کی جو تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی۔
اس کے عقب میں موجود ہورڈنگ پر پاکستانی کرکٹرز کے چہرے دھندلے کر دیے، شاید گنگولی ایسا نہ چاہتے ہوں مگر انھیں اپنے ہم وطنوں کی تنگ نظری کا بخوبی علم ہے جو اس پر بھی رائی کا پہاڑ بنا دیتے، ہمارے شعیب اختر پورے سال بھارتیوں کی تعریفوں پر مبنی ویڈیوز بناتے رہتے ہیں انھیں کوئی نہیں پوچھتا لیکن کوئی بھارتی کرکٹر اگر ایسا کرے تو اس کا جینا مشکل ہو جائے گا۔
جو بھارتی شارجہ اسٹیڈیم میں پاکستانیوں کی تصاویر برداشت نہیں کر سکتے وہ کیسے پاکستان اور یو اے ای کو دوست بنا رہنے دیں گے،اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی لیگ یا ٹیم کے میچز سے امارات کو بھی ہر لحاظ سے زیادہ مالی فائدہ ہوگا مگر انھیں تعلقات میں توازن رکھنا چاہیے،پی سی بی بھی یہ تمام باتیں ذہن میں رکھے، اس نے تنقید کر دی یہ ہمارے خلاف ہے یہ دوست صحافی ہے یہ دشمن، ایسی چھوٹی باتیں بھول کر بڑی چیزوں پر توجہ دیں۔
ابھی آئی سی سی کی چیئرمین شپ کے معاملے پر ہی بگ تھری اور پی سی بی کی درپردہ جنگ چل رہی ہے،احسان مانی کہہ چکے کہ بھارت، آسٹریلیا یا انگلینڈ سے نیا چیئرمین نہ ہو تو اچھا رہے گا مگر یہ تینوں ممالک ایسا نہیں ہونے دیں گے، پاکستان کے حمایت یافتہ عمران خواجہ کے قائم مقام چیئرمین بننے پر بھی بھارت کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی ہے۔
دیکھتے ہیں اس حوالے سے کیا فیصلہ ہوتا ہے، مگر ایک بات طے ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کواب دیگر بورڈز سے اپنے تعلقات مزید بہتر بنانے ہوں گے،افسوس وسیم خان کو بورڈ کے ہی ایک افسر نے مقامی سیاست میں الجھا دیا ورنہ وہ اس حوالے سے اچھا کردار ادا کر سکتے تھے،امید ہے کہ وہ کرکٹ کی عالمی سیاست میں تیزی سے رونما ہونے والی ان تبدیلیوں پر نظر رکھیں گے،ملکی کرکٹ میں آپ جو بھی کر لیں وزیر اعظم کی سپورٹ کی وجہ سے کوئی بال بھی بانکا نہیں کر سکتا مگر عالمی سطح پر ایسا نہیں ہے وہاں آپ کو اپنے بل بوتے پر کامیابیاں سمیٹنی ہوں گی،دیکھتے ہیں بورڈ حکام اس حوالے سے کیا اقدامات کرتے ہیں۔