news

کیا شاہین آفریدی مکمل فٹ ہیں؟

۔شاہین شاہ آفریدی کی فٹنس کے بارے میں سوال اس وقت ملین ڈالرزکا بنا ہوا ہے، نہ صرف میڈیا بلکہ سابق کرکٹرز بھی اس حوالے سے آواز اٹھا رہے ہیں،

کیا شاہین آفریدی مکمل فٹ ہیں؟

شاہین آفریدی کی فٹنس کے بارے میں اب تو ساتھی کھلاڑی بھی دبے لفظوں میں یہ باتیں کرنے لگے ہیں کہ وہ مکمل فٹ نہیں ہیں،اگر واقعی ایسا ہے تو انہیں کھلا کر کیوں ان کے کیریئر کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، تھوڑا انتظار کر لیں، ورلڈکپ تو آتے رہیں گے۔

بھارت سے میچ میں پاکستانی ٹیم نے کئی غلطیاں کیں جو ٹیم کو لے ڈوبیں، میڈیا سینٹر میں جو بھارتی صحافی بیٹھے تھے ان کا تعلق بنگال سے تھا، انھوں نے بتایا کہ وہ کئی بار کرکٹ کی کوریج کے لیے پاکستان جاچکے ہیں اور اب دوبارہ جانے کا ارادہ ہے مگر نجانے ایسا موقع کب آئے، ویسے جب تک نریندر مودی کی حکومت ہے تو اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

آئی سی سی نے مسلم صحافیوں کے لیے حلال کھانوں کا اہتمام بھی کیا تھا، میں نے ایک بات نوٹ کی کہ جیسے ہمارے بہت سے سابق کرکٹرز اور صحافی شاندار کارکردگی کے باوجود بابراعظم کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔

بھارت میں ایسا ہی ویرات کوہلی کے ساتھ ہوتا ہے، جب وہ بیٹنگ کر رہے تھے تو ایک بھارتی صحافی کا کہنا تھا کہ ’’جب تک یہ کریز پر ہے پاکستان ہی جیتے گا، کوہلی اپنے ریکارڈزبناتا ہے ٹیم کا نہیں سوچتا‘‘ بعد میں اس کے بالکل برعکس ہوا اور کوہلی نے میچ جتوا دیا۔

اس بار پاکستان سے صحافیوں کی بڑی تعداد آسٹریلیا آئی ہے، کراچی سے عبدالرشید شکور، فیضان لاکھانی، اصغر جبکہ لاہور سے عبدالقادر خواجہ، اعجاز وسیم باکھری، انس سعید، چوہدری اشرف وغیرہ بھی آئے ہیں، یہ سب اپنی فیلڈ کے ماہر اور اچھے انداز میں کام کر رہے ہیں۔

آئی سی سی کے راج شیکھر سے ملاقات ہوئی تو میں نے ویزے کے حوالے سے اعلیٰ انتظامات کی تعریف کی،اس بار آسٹریلوی حکومت نے ورلڈکپ کے لیے ایکریڈیٹیڈ افراد کی نہ صرف ویزا فیس معاف کی بلکہ انھیں بائیو میٹرک سے بھی مستثنیٰ قرار دیا، بغیر پاسپورٹ جمع کرائے بیشتر صحافیوں کا ویزا 4،5 دن میں لگ گیا تھا،البتہ یہ سہولت دیگر افراد کو دستیاب نہیں۔

ایک پاکستانی اوبر ڈرائیور نے بتایا کہ بیشتر پاکستانیوں کو اب آسٹریلوی ویزا نہیں دیا جا رہا، وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو قرار دیا جاتا ہے کہ ویزا پانے والا واپس اپنے ملک نہیں جائے گا، اس سے طالب علموں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستانی ٹیم میچ کی اگلی صبح پرتھ روانہ ہوئی،اس سے قبل بھارتی اسکواڈ سڈنی گیا تھا، ایک پاکستانی دوست بھی اس وقت ایئرپورٹ پر موجود تھے، انہوں نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے کھلاڑی بہت زیادہ منکسرالمزاج ہیں،ان میں نخرے نہیں، خصوصا محمد رضوان کا تو جواب نہیں، سیلفی کا کسی نے انکار نہیں کیا، بھارتی کرکٹرز مداحوں سے ذرا ریزرو ہی رہتے ہیں، کوہلی اور روہت کے ساتھ موجود گارڈز کسی کو قریب نہیں آنے دیتے،البتہ دیگر سے تصویر کی درخواست کی تو کسی نے انکار نہ کیا۔

میلبورن کے ٹیم ہوٹل میں بھی شائقین کا تانتا بندھا ہوتا تھا جو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو قریب سے دیکھنے کے خواہاں تھے، کووڈ کے دور میں آسٹریلیا نے سخت ترین پابندیاں نافذ کیں، بغیر ویکسینیشن کے ٹینس اسٹار نووک جوکووچ تک تو نہیں آنے دیا مگر اب سب کچھ تقریبا نارمل ہے۔

ورلڈ کپ میں شریک کھلاڑیوں پربھی کوئی پابندی نہیں اور وہ آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں، بار بار کووڈ ٹیسٹنگ سے بھی نجات مل چکی ہے، پاکستان کے چند کرکٹرز سے بات ہوئی مگر میں اپنے دوست ثقلین مشتاق کو مس کرتا ہوں، ٹیم کا کوچ وہ ثقلین نہیں جسے میں جانتا تھا شاید جب عہدے سے ہٹیں تو پرانے والے ثقلین واپس آ جائیں۔

دبئی سے صحافی عبدالرحمان رضا خصوصی طور پر بھارت کے خلاف میچ کی کوریج کے لیے میلبورن آئے  تھے، میں ملاقات کے لیے ان کے ہوٹل  گیا،پھر ہم واک کرتے ہوئے دریائے یارا کی طرف چلے گئے وہاں تصاویر بنوائیں اور کافی پی، عبدالرحمان رضا بہت ملنسار انسان ہیں، ایک بار جس سے مل لیں اسے دوست بنا لیتے ہیں، صحافیوں میں وہ بے حد مقبول ہیں، ان سے ملنے کے بعد جب میں واپس گیا تو چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک آواز آئی سلیم بھائی، میں نے سوچا یہاں کون اپنا جاننے والا آ گیا دیکھا تو زینب عباس موجود تھیں۔

ان کے ساتھ سابق انگلش کرکٹر و موجودہ کمنٹیٹر ایشا گوہا بھی تھیں، میں نے زینب سے کہا واقعی دنیا بہت چھوٹی ہے کہیں بھی کسی سے ملاقات ممکن ہے، زینب پاکستانی خواتین کے لیے رول ماڈل ہیں، انہوں نے بڑی تیزی سے اپنا نام بنایا اور اب وہ ملک کا فخر بن چکی ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ اب بھی ان میں انکساری موجود ہے،شاید ان کی مسلسل ترقی کا یہی راز ہے۔

پاکستان کے لیے یہ بڑا اعزاز ہے کہ ملک کی ایک خاتون ورلڈکپ کی پریزینٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں، ہوٹل واپسی پر میں نے کچھ دیر دفتر کا کام کیا اور پھر ایئرپورٹ روانہ ہو گیا،آسٹریلیا بہت بڑا ملک ہے، میلبورن سے پرتھ پہنچنے میں بھی سوا چار گھنٹے لگ جاتے ہیں،پرتھ آمد پر میرے ایک دوست نے ایئرپورٹ سے پک کیا،ان کے گھر پہنچتے پہنچتے کافی رات ہو چکی تھی لہذا آرام کو ترجیح دی،اگلے روز پاکستان ٹیم کا پریکٹس سیشن ہوا جس میں تمام کھلاڑیوں نے شرکت کی۔

اب زمبابوے سے مقابلہ ہونا ہے،بظاہر وہ مضبوط سائیڈ نہیں لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا،ہماری ٹیم کو اکثر کمزور حریف بھی مشکل میں ڈال دیتے ہیں،اس لیے کسی سہل پسندی کا شکار ہوئے بغیر پرفارم کرنا ہوگا، نیٹ رن ریٹ بھی بہت اہم چیز ہے، ٹیم مینجمنٹ کو اس پر نظر رکھنا ہوگی،زمبابوے سے میچ میں زیادہ گہما گہمی نہیں ہوگی۔

میچ کے ٹکٹ اب تک دستیاب ہیں، پاکستانی شائقین بڑی ٹیموں سے مقابلوں کو ہی پسند کرتے ہیں،سڈنی میں جنوبی افریقہ سے مقابلے کے لیے ابھی سے خاصا جوش و خروش پایا جا رہا ہے، شاید وہ میچ کھچا کھچ بھرے اسٹیڈیم میں ہو، خیر اب اجازت دیں کل آپ کو پرتھ اسٹیڈیم کے بارے میں بتاؤں گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)