news
English

راشد کو بابرکی کپتانی چھن جانے کا خدشہ ستانے لگا

سرفرازکوغلط ہٹایاگیا،ون ڈے کرکٹ ترجیحات میں شامل نہیں،مصباح کوتبدیل کرنا درست نہیں ہوگا،سابق قائد

راشد کو بابرکی کپتانی چھن جانے کا خدشہ ستانے لگا فوٹو: اے ایف پی

راشد لطیف کو بابر اعظم کی کپتانی چھن جانے کا خدشہ ستانے لگا۔

سابق کپتان کا کہنا ہے کہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز میں قومی ٹیم کی کارکردگی مایوس کن رہی تو بیٹسمین فیصلہ کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں،جارحانہ قیادت کے لیے حسن علی کو آزمانا چاہیے،سرفراز احمد کو ہٹانا غلط فیصلہ تھا،حالیہ شکستوں کو بھلانا مشکل ہے،ون ڈے کرکٹ سابق اور موجودہ پی سی بی مینجمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی،ورلڈکپ سے قبل ہیڈ کوچ مصباح الحق کو تبدیل کرنا درست نہیں ہوگا،سلیکشن کمیٹی اور کپتان سمیت سب سے غلطیاں ہوئیں۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان  کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹwww.cricketpakistan.com.pk کے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میںگفتگوکرتے ہوئے راشد لطیف نے کہاکہ مجھے لگتا ہے شاید دورئہ ویسٹ انڈیز کے بعد ذاتی کارکردگی برقرار رکھنے کیلیے بابر اعظم کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں،دورہ انگلینڈ میں تاحال گرین شرٹس کی کارکردگی مایوس کن رہی، اگر ویسٹ انڈیز کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تو ہوسکتا ہے کہ بابر سے کہا جائے کہ صرف بیٹنگ کرو کپتانی کوئی اور کرے گا۔

ٹی ٹوئنٹی میں تو ان کو کپتان برقرار رکھنا ٹھیک ہے،سب سے بڑا مسئلہ ون ڈے کا ہے، حسن علی کو آزمانا چاہیے، بہتر ہے وہ کھلاڑی کپتان بنے جس میں جارحانہ پن ہو، انھوں نے کہا کہ سرفراز احمد کو قیادت سے ہٹانا غلط فیصلہ تھا،ٹیم میں پرفارمر صرف ایک بابر ہی تھا،سوچ یہ ہوتی ہے کہ کھیلے گا تو قیادت سیکھ جائے گا،کپتان تو بچپن سے ہی لیڈر ہوتا ہے،پاکستان کے بہت کم کپتان لیڈر تھے۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ون ڈے سیریز میں انگلینڈ نے متبادل اسکواڈ منتخب کیا تو ہماری بھی تو ’’بی‘‘ ٹیم کھیلی،حارث سہیل انجرڈ ہوگئے۔

عماد وسیم کو پلیئنگ الیون میں ہونا چاہیے تھا،شاداب خان آؤٹ نہیں کرپا رہے، کئی غلطیاں نظر آئیں، حالیہ شکستوں کو بھلانا مشکل ہورہا ہے، دراصل پاکستان ٹی ٹوئنٹی تک محدود ہوگیا، ون ڈے کرکٹ پر توجہ نہیں رہی،اس سے پہلے کی مینجمنٹ نے بھی اس فارمیٹ کو نظر انداز کیا،گراس روٹ سطح پر کرکٹ نہیں ہوئی، ٹورنامنٹ کرانے کی صرف رسمی کارروائی مکمل کی گئی، حاصل کچھ نہیں ہوا، اس فارمیٹ کیلیے فارم اور فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے مگر سال کے آخر میں صرف ایک ڈومیسٹک ون ڈے ٹورنامنٹ ہوا۔

اس میں بھی موجودہ اسکواڈ میں شامل کھلاڑیوں میں سے صرف صہیب مقصود کھیلے،ان کو بھی ٹی ٹوئنٹی کیلیے منتخب کرنے کے بعد ون ڈے میں کھلادیا گیا،انگلینڈ کے سلیکٹرز نے فوری طور پر نئی ٹیم منتخب کردی جس کو کپتان نے میدان میں لڑایا، ان کو اپنے 40کھلاڑیوں کے پول کا علم ہے،ہمارے ہاں سوچتے ہیں کہ سلیکٹرز، ہیڈ کوچ یا کپتان کے کتنے پلیئرز منتخب نہیں ہوسکے۔

کرکٹرز کو کردارکوچ کو بتانا ہوتا ہے،پہلے فخرزمان اسٹروکس کھیلتے امام الحق ایک اینڈ سنبھالتے تھے، اب دونوں ایک جیسی ہی بیٹنگ کر کے آؤٹ ہو رہے ہیں،رنز بنانے کی ذمہ داری بابر اعظم اور محمد رضوان کیلیے چھوڑ دی جاتی ہے،مکی آرتھر کے جانے سے فخرزمان اور امام الحق کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے،سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔ ایک سوال پر راشد لطیف نے کہا کہ ورلڈکپ سے قبل ہیڈ کوچ تبدیل کرنے کا وقت نہیں،اس موقع پر بڑا اور مشکل فیصلہ نہیں کرسکتے،میں نہیں چاہوں گا کہ مصباح الحق کو تبدیل کیا جائے،صرف کوچ  ہی نہیں سلیکشن کمیٹی اور پلیئرز سب کا کردار ہوتا ہے۔

شاداب خان، فہیم اشرف، حارث رؤف اور صہیب مقصود کی بات ہورہی ہے تو ان کو ٹی ٹوئنٹی کے لیے منتخب کرکے ون ڈے میں کیوں کھلایا؟ ون ڈے میچز میں نمبر 6پر سرفراز کو کھلانا چاہیے تھا،سلیکشن کمیٹی کے ساتھ بابر اعظم کی بھی غلطیاں ہیں،اگر ہم صرف مصباح اور وقار یونس کو تبدیل بھی کردیں تو پلیئرز تو وہی ہیں،کوئی ایسا شخص چاہیے جو ٹیم کا مزاج تبدیل کردے،اس طرح کے لوگ بہت کم ہیں۔

احسان مانی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی

راشد لطیف کا کہنا ہے کہ موجودہ پی سی بی مینجمنٹ کے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ہونے سے پڑ رہا ہے،سابق کپتان نے کہا کہ چیئرمین احسان مانی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی،اگر ڈائریکٹرز پرفارم نہیں کررہے تو انھیں منتخب احسان مانی اور چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے ہی کیا ہے۔

پی ایس ایل کا کراچی میں مرحلہ ختم ہوا، ابوظبی میں بڑی مشکل سے میچز کاانعقاد ہوا،یہ پی سی بی،چیئرمین اور سی ای او کی ناکامی ہے،کسی ڈائریکٹر کو ہٹایا کیوں نہیں گیا؟ وہ لوگ طاقتور تھے، بچ نکلے، میرے اور آپ جیسے لوگوں کو ہی ہدف بنایا جاتا ہے۔