انھوں نے چیف سلیکٹر انضمام الحق کی جانب سے فٹ قرار دیے جانے والے شاداب خان کے حوالے سے حقیقت بھی بیان کر دی،
ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے جنوبی افریقہ میں شکستوں کا ملبہ بولرز کی تھکاوٹ پر ڈال دیا۔
انھوں نے چیف سلیکٹر انضمام الحق کی جانب سے فٹ قرار دیے جانے والے شاداب خان کے حوالے سے حقیقت بھی بیان کر دی،ان کا کہنا ہے کہ نوجوان اسپنر دستیاب ہوتے تو آل راؤنڈر کا خلا پُرکرسکتے تھے،پیسرز کو آرام نہیں مل سکا، جنوبی افریقی کنڈیشنز میں بڑے اسکور کی ضرورت تھی، فہیم اشرف کو شامل کرنے کیلیے اپنا بیٹنگ اسٹاک کم نہیں کرسکتے تھے،مسلسل ٹیسٹ کھیلنے کی وجہ سے کم عمر شاہین شاہ آفریدی کی رفتار پر بھی فرق پڑا، یاسر شاہ میچ ونر ہیں،لیگ اسپنر کو چوتھے یا پانچویں روز کی شکستہ پچ پر بولنگ کا موقع ہی نہیں مل سکا، فخرزمان کا پروٹیز کے دیس میں پہلا تجربہ تھا، وہ شارٹ گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے مشکلات کا شکار رہے، کیپ ٹاؤن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں جرات مندانہ بیٹنگ سے حوصلہ ملا۔
تفصیلات کے مطابق کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کپتان سرفراز احمد نے بولرز کو ہدف تنقید بنایا، ان کا کہنا تھا کہ پیسرز کی گیندیں 130 کی رفتار سے اوپر نہ جا سکیں،اس کارکردگی کے ساتھ ہم حریف کی 20وکٹیں نہیں لے سکتے تھے، اب ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے ویب سائٹ ’’کرک انفو‘‘ کو ایک انٹرویو میں بولرزکی رفتار میں کمی کا سبب تھکاوٹ کو قرار دیدیا، انھوں نے کہاکہ آل راؤنڈرشاداب خان کی انجری کے سبب ہم پانچواں بولر پلیئنگ الیون میں شامل نہیں کرسکے، میں5بولرز کے ساتھ میدان میں اترنے کے حق میں ہوں،اس کمبی نیشن سے صف اول کے پیسرز کو آرام مل سکتا ہے، ہم شاداب کے مکمل فٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ نہیں کرسکے۔
اگر وہ دستیاب اور فہیم ساتویں نمبر پر بیٹنگ کیلیے آتے تو پاکستان کے ٹیل اینڈرز بھی زیادہ مزاحمت کرپاتے۔کوچ نے کہا کہ میں فہیم اشرف کی صلاحیتوں کا معترف ہوں،ہم نے انھیں انگلینڈ میں میچز بھی کھلائے، جنوبی افریقہ کی سخت کنڈیشنز میں ہمیں بڑے اسکورز کی ضرورت تھی اسے پیش نظر رکھتے ہوئے مشکل فیصلہ کیا،ہم جنوبی افریقی کنڈیشنز میں اپنا بیٹنگ اسٹاک مزید کم نہیں کرسکتے تھے۔مکی آرتھر نے کہا کہ انگلینڈ میں فہیم اشرف کھیلے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم وہاں2اسپنرز کے ساتھ میدان میں اترسکتے تھے،یاسر شاہ اور شاداب خان کے طویل اسپیل پیسرز کو آرام کا موقع فراہم کرتے، البتہ جنوبی افریقہ میں2اسپنرز کی ضرورت نہیں تھی،ایک آل راؤنڈر ہونے کے ناطے شاداب خان اسپنر کے ساتھ بیٹنگ میں بھی استحکام کا ذریعہ بنتے،اگر پانچواں بولر نہ ہو تو خدشہ یہی رہے گا کہ پیسرز تھکاوٹ کا شکار ہوجائیں گے۔ہیڈ کوچ نے تسلیم کیا کہ شاہین شاہ آفریدی پہلے ٹیسٹ کے بعد تھک گئے تھے، پیسر ابھی صرف 18سال کے ہیں۔
کیریئر کے آغاز میں انھیں مسلسل طویل فارمیٹ کے میچز کھیلنے کا موقع مل گیا، وہ تھکاوٹ کا شکار اور ایسے میں اسپیڈ پر فرق پڑنا نیچرل ہے،مکی آرتھر نے کہا کہ ہمیں کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں شاہین شاہ آفریدی یا حسن علی میں سے کسی ایک کو باہر بٹھانا تھا،سینچورین میں اچھی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھنے کیلیے نوجوان پیسر کو ترجیح دی۔
سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں شاداب خان کی شمولیت کے امکانات روشن ہونے کے باوجود مکی آرتھر نے یاسر شاہ کا دفاع بھی کیا،انھوں نے کہاکہ سینئر لیگ اسپنر میچ ونر ہیں،گزشتہ دونوں میچز میں انھیں چوتھے یا پانچویں روز کی شکستہ پچ پر بولنگ کا موقع ملتا توکردار اہم ہوتا لیکن ایسا وقت ہی نہیں آ سکا۔یاد رہے کہ فٹنس مسائل کے باوجود محمد عباس اور شاداب خان کو جنوبی افریقہ بھجوانے والے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے بعد ازاں دونوں کے فٹ ہونے پر اصرار بھی کیا تھا، پیسر پہلا ٹیسٹ نہیں کھیل پائے،وہ دوسرے میں بھی بھرپور فارم میں نہیں تھے شاداب کیلیے ابھی تک سیریز شروع ہی نہیں ہوئی۔ ایک سوال پر ہیڈ کوچ نے کہا کہ فخرزمان کا جنوبی افریقی کنڈیشنز میں پہلا تجربہ تھا،ہمارے خدشات کے مطابق انھیں شارٹ گیندیں کھیلنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا،ڈیبیو پر عمدہ کارکردگی کی بدولت ان کو اسکواڈ میں شامل کیا،کوچ نے کہا کہ کیپ ٹاؤن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں اسد شفیق اور بابر اعظم کی ففٹیز ٹیم کیلیے بڑی حوصلہ افزا ہیں،ہماری اننگز 170پر تمام اور میچ تیسرے روز ہی ختم ہونے کا خطرہ تھا لیکن جرات مندانہ بیٹنگ کی بدولت آخر تک لڑے، بطور کوچ میرے لیے یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے۔