خصوصی انٹرویو میں سابق ٹیسٹ اوپنر محسن حسن خان نے کہاکہ پاکستان کرکٹ کے سسٹم میں کھلاڑیوں کو بنانے کے بجائے بگاڑا جاتا ہے،
لاہور: سابق چیف سلیکٹر محسن خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان کرکٹ اپنی راہ سے بھٹکنے لگی ہے،انھوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کا ناکام تجربہ دہراتے ہوئے مصباح الحق کو ہیڈکوچ اور چیف سلیکٹر کی دہری ذمہ داریاں سونپ دی گئیں،سابق کپتان کو دونوں شعبوں کا کوئی تجربہ نہیں، مفادات کا ٹکراؤ بھی ہوگیا،ناقص کارکردگی پر کون جواب دہ ہوگا،ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بابر اعظم قیادت اور بیٹنگ کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،شرجیل خان میں ٹیلنٹ موجود جبکہ حیدر علی ٹاپ آرڈر کو مستحکم بنا سکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ’’ایکسپریس‘‘ کو خصوصی انٹرویو میں سابق ٹیسٹ اوپنر محسن حسن خان نے کہاکہ پاکستان کرکٹ کے سسٹم میں کھلاڑیوں کو بنانے کے بجائے بگاڑا جاتا ہے،ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں لیکن صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی نظر نہیں آتی،نیوزی لینڈ نے کپتان ڈینیئل ویٹوری کو سلیکشن کمیٹی کا رکن بنایا تھا لیکن فیصلوں میں مداخلت کے مسائل نے طول پکڑا تو ان کو ہٹا دیا گیا،پی سی بی نے اس ناکام تجربے کو دہرانے کا فیصلہ کیا، ذمہ داری بھی ایک ایسے شخص کو دی جس کو کوچنگ اور سلیکشن کا کوئی تجربہ ہی نہیں، انھوں نے کہا کہ عمران خان کے وزیراعظم اور پی سی بی کا پیٹرن انچیف بننے کے بعد میرٹ پر فیصلوں کی امید تھی لیکن ایسا نظر نہیں آیا،یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ اپنی راہ سے بھٹکنے لگی ہے،ٹیم کی کارکردگی میںکوئی تسلسل نظر نہیں آ رہا،ایک آدھ میچ تو کوئی ٹیم بھی جیت جائے گی۔
کارکردگی میں تسلسل کیلیے اہم ہے کہ ٹیلنٹ کو تلاش کرکے نکھارا جائے، پرفارمنس، ڈسپلن اور فٹنس پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے لیکن جب چیف سلیکٹر اپنی منتخب ٹیم خود ہی بطور ہیڈ کوچ میدان میں اتارے گا تو ناقص کارکردگی پر احتساب کس کا کریں گے؟ سابق اوپنر نے کہا کہ جب میں ہیڈ کوچ تھا تو چیئرمین اعجاز بٹ نے چیف سلیکٹر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالنے کے لیے کہا، مگرمیں نے مفادات کا ٹکراؤ ہونے کی وجہ سے خود ہی انکار کر دیا۔ آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلیے پاکستان کی تیاریوں کے سوال پر انھوں نے کہا کہ کپتان بننے سے بھی بابر اعظم کی بطور بیٹسمین کارکردگی متاثر نہیں ہوئی،وہ ٹی ٹوئنٹی کیساتھ دیگر دونوں فارمیٹس میں بھی پرفارم کررہے ہیں،بابرڈسپلن اور کھیل پر توجہ کی وجہ سے دیگر نوجوان کرکٹرز کے لیے ایک مثال ہیں۔
وہ غیر ضروری جارحیت دکھانے کے بجائے کلاسک اسٹروکس کھیلتے اور قیادت کیلیے بھی موزوں ہیں، ایک سوال پر محسن خان نے کہا کہ پاکستان میں اوپنر کا مسئلہ ہمیشہ ہی رہتا ہے، شرجیل خان میں صلاحیت ہے، فٹنس کی بات ہے تو پہلے بھی 11 میں سے 8 کرکٹرز شاید اس معیار پر پورا نہ اترتے ہوں، پی ایس ایل میں چند اچھے کرکٹرز نظر آئے، حیدر علی ٹاپ آرڈر کو استحکام دے سکتے ہیں، اسپنر عمر خان انٹرنیشنل کرکٹ کیلیے تیار اور تینوں فارمیٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرسکتے ہیں،نوجوان پیسرز شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور دیگر نے بھی صلاحیتوں کی جھلک دکھائی ہے، شاداب خان، عماد وسیم اور انور علی کو بطور آل راؤنڈر اعتماد اور ذمہ داری دیں تو بیٹ اور بال دونوں سے چند اورز میں میچ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اچھے آل راؤنڈر رکھنے والی ٹیمیں ہی زیادہ کامیاب نظر آتی ہیں،اصل بات کھلاڑیوں کو میگا ایونٹ کیلیے تیار کرنا ہے لیکن فی الحال ایسا ویژن ہی نظر نہیں آتا۔