جب تک بلز کی تصدیق نہیں ہو جاتی ادائیگی کیسے کر سکتے ہیں؟ پی سی بی ذرائع۔
پاکستان اور سری لنکا میں ایشیاء کپ کے مالی معاملات پر اختلافات تاحال برقرار ہیں۔
ایشیاء کپ کا انعقاد گذشتہ برس پاکستان میں ہونا تھا،بھارتی ٹیم کے دورے سے انکار پر ہائبرڈ ماڈل اپناتے ہوئے سری لنکا میں بھی میچز کا انعقاد کیا گیا، ایونٹ 30اگست سے 17ستمبر تک منعقد ہوا،ذرائع نے بتایا کہ اب تک دونوں میزبان ممالک میں مالی معاملات پر اختلافات برقرار ہیں۔
بالی، انڈونیشیا میں اے سی سی کی اہم میٹنگ کے دوران صدر سری لنکا کرکٹ شمی سلوا نے ہوٹلز کے بلز کی عدم ادائیگی کا تذکرہ کیا تو صدر جے شاہ نے انھیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ میٹنگ کے بعد اس معاملے پر براہ راست پی سی بی سے بات کریں۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی موقف یہ ہے کہ بہت سے ایسے بلز ہیں جن کی تصدیق ہونا باقی ہے، جب تک یہ مرحلہ پورا نہیں ہوتا ہم کیسے ادائیگی کرسکتے ہیں، دوسری جانب چارٹرڈ فلائٹس کا مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے۔
پی سی بی کا موقف ہے کہ مکمل ایونٹ پاکستان میں نہ کرانا ایشین کونسل کا ہی فیصلہ تھا لہذا اضافی اخراجات بھی اسی کو برداشت کرنے چاہیئں، فلائٹس پری کوالیفائی نہ کرنے والی سری لنکن کمپنی کلاسک ٹریول کے ذریعے بک کرائی گئیں، اس نے چار چارٹرڈ فلائٹس کے لیے 2 لاکھ 81 ہزار 700 ڈالر کا ریٹ دیتے ہوئے تمام رقم ایڈوانس لی تھی۔
وینیو ہائر کرنے کے عوض پی سی بی نے سری لنکا کو2,069,885 ڈالرز دینے کا معاہدہ کیا، 50 اور پھر 25 فیصد رقم کی ادائیگی ایونٹ سے قبل ہی کر دی گئی تھی، باقی ڈالرز معاہدے کے تحت دینا تھے،ایشین کرکٹ کونسل کو پاکستان کو 25 لاکھ ڈالرز میزبانی فیس دینا تھی، ٹکٹنگ اور اسپانسر شپ کی رقم الگ ہے، ایونٹ کے اخراجات کا تخمینہ تقریباً 40 لاکھ ڈالر لگایا گیا تھا۔
ابتدائی شیڈول کے تحت میچز صرف ایک پاکستانی شہر لاہور میں ہونے تھے تاہم پی سی بی نے ملتان کو بھی شامل کرتے ہوئے افتتاحی مقابلہ وہیں کرایا، اے سی سی اسی کو جواز بنا کر اضافی اخراجات کی ادائیگی سے گریزاں ہے۔