news
English

قومی کرکٹرز نے اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے کی ٹھان لی

قومی کرکٹرز کی آئی سی سی ایونٹس سے حاصل شدہ رقم میں سے بھی مناسب حصہ کھلاڑیوں کو دینے کی خواہش

قومی کرکٹرز نے اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے کی ٹھان لی

ملکی کرکٹ میں یہ روایت رہی ہے کہ کئی سو صفحات پر مشتمل سینٹرل کنٹریکٹ کھلاڑی کو دے کر کچھ دیر میں دستخط کے بعد واپس لے لیا جاتا تھا، انھیں وکلا سے مشاورت کے لیے کاپی تک نہیں ملتی تھی، گزشتہ برس اس حوالے سے کچھ بہتری نظر آئی اورکرکرٹرز کو کنٹریکٹ کے مطالعے کا وقت دیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ مختلف لیگز کی وجہ سے پاکستانی کرکٹرز کی دیگر ممالک کے کھلاڑیوں سے دوستیاں ہو گئی ہیں اور وہ آپس میں کنٹریکٹس و دیگر معاملات پر بات بھی کرنے لگے ہیں، اس سے انھیں اپنے اور غیرملکی پلیئرز کے معاہدوں میں پائے جانے والے فرق کا علم ہوا، اس پر انھوں نے اپنے حقوق کے لیے حکام سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب آئی سی سی ایونٹس سے حاصل شدہ رقم سے مخصوص حصہ غیر ملکی بورڈز اپنے کھلاڑیوں کو دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔

ذرائع نے بتایا کہ چند برس قبل جب کرکٹر آصف علی کی بیٹی بیمار ہوئی تو انھیں امریکا میں علاج کے لیے 40 ہزار ڈالرز کی ضرورت پڑی، انھوں نے پی سی بی سے رابطہ کیا تو خاصی تاخیر سے کچھ رقم ملی، بیٹی کو علاج کے لیے بھیجا تو وہاں جاتے ہی اس کا انتقال ہوگیا۔ اس سے دیگر کھلاڑیوں کو اپنے حوالے سے بھی عدم تحفظ کا احساس ہوا اور انھوں نے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔

موجودہ کھلاڑیوں کی خاص بات ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے، اسی لیے کچھ عرصے قبل کنٹریکٹس کے وقت سینئرز نے تمام پلیئرز کا یکساں معاوضہ کرنے کا مطالبہ کیا جسے پی سی بی نے تسلیم بھی کر لیا تھا، آئندہ ماہ موجودہ معاہدوں کا اختتام ہو جائے گا۔

قومی کرکٹرز اس سے قبل ہی ساتھ بیٹھ کر لائحہ عمل تیار کرنا چاہتے ہیں، انھیں سزائیں بہت زیادہ سخت لگتی ہیں، معمولی سی غلطی پر بھی جرمانہ یا پابندی رکھی گئی ہے۔

کھلاڑی چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ ختم ہو، معاہدوں میں سنگین خلاف ورزیوں پر ہی سزائیں رکھی جائیں، کھلاڑی فیملی ہیلتھ انشورنس کے ساتھ ایجوکیشن پالیسی بھی چاہتے ہیں، انھیں ڈر ہے کہ اگر کبھی انجری کے سبب کسی کا کیریئر ختم ہوا تو اسے کوئی نہیں پوچھے گا، ویلفیئر کا کوئی مناسب سسٹم ہونا چاہیے، وہ آئی سی سی ایونٹس سے حاصل شدہ رقم میں سے بھی مناسب حصہ چاہتے ہیں، کمرشل معاہدوں کے حوالے سے بھی بعض معاملات پر شکوک ہیں جنھیں کھلاڑی دور کرنے کے خواہشمند ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ فی الحال پلیئرز کا اپنی ایسوسی ایشن بنانے کا ارادہ نہیں لیکن وہ فارغ وقت میں ساتھ بیٹھ کر باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کرتے رہتے ہیں۔

اس حوالے سے پی سی بی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ کھلاڑیوں کے مفادات کا تحفظ ہماری بھی ذمہ داری ہے، جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں گے، ابھی کسی نے ملاقات کے لیے رابطہ نہیں کیا، جب کریں گے تو دیکھا جائے گا۔

یاد رہے کہ پی سی بی نے گذشتہ برس 30 جون کو ایک سال کے لیے کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ دیا تھا، ریڈ اور وائٹ بال کی مختلف کیٹیگریز میں مجموعی طور پر 33پلیئرز کو شامل کیا گیا۔

کپتان بابر اعظم،محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی دونوں طرز کی ’’اے‘‘ کیٹیگریز میں شامل ہیں، تینوں فارمیٹ کی میچ فیس میں 10فیصد اضافہ کیا گیا، نان پلیئنگ پلیئرز کی فیس 50 سے 70 فیصد بڑھا دی گئی جبکہ کپتان کے لیے خصوصی الاؤنس بھی متعارف کرایا گیا تھا۔