16 مئی تک اجازت نہ ملنے پرامارات میں میچز کا باب بند کرنا پڑے گا۔
کراچی: پی ایس ایل6 کے انعقاد پرپی سی بی کی وقت کے ساتھ ہرڈل ریس جاری ہے جب کہ 16 مئی تک اجازت نہ ملنے پر یو اے ای میں میچز کا باب بند کرنا پڑے گا۔
پی ایس ایل6کوکورونا کیسز کی وجہ سے 14میچز کے بعد ہی روک دیا گیا تھا، پی سی بی نے یکم جون سے کراچی میں انعقاد کا اعلان کیا مگر پھروائرس کی نئی لہر کے سبب یو اے ای منتقل کرنے کا ارادہ ظاہرکر دیا۔
ذرائع نے بتایا کہ اب تک اماراتی حکومت کی جانب سے پاکستان کو لیگ کے انعقاد کی باقاعدہ اجازت نہیں ملی ہے،اگر 16 مئی تک ایسا نہ ہوا تو امارات میں میچز کا باب بند کرنا پڑے گا،البتہ پی سی بی نے اپنی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
پابندی سے ایک دن پہلے انتظامات کیلیے 7 رکنی بھاری بھرکم وفد یو اے ای پہنچ چکا،ہوٹل کی بکنگ اور ویزوں کی تعداد وغیرہ کے حوالے سے بھی بات چیت جاری ہے،یو اے ای نے پاکستانیوں کی آمد پر پابندی لگائی ہوئی ہے جس کا اطلاق 12 مئی سے ہوا۔
لیگ کیلیے خصوصی اجازت کی صورت میں بھی 10روزہ قرنطینہ مکمل کرنا پڑے گا، اس صورت میں وقت مزید کم باقی رہ جائے گا، اسی لیے ایک دن میں 2میچز کی تجویز بھی سامنے آئی ہے، البتہ سخت گرمی میں یہ کھلاڑیوں کیلیے خاصا چیلنجنگ ثابت ہوگا۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق اجازت ملنے کی صورت میں میزبانی کیلیے ابوظبی فیورٹ ہے، وہاں کے سخت ماحول میں لیگ کا کامیابی سے انعقاد ممکن ہوسکے گا۔
دوسری جانب پی سی بی کے پاس پلان بی بھی موجود ہے، اگر کسی وجہ سے امارات میں میچز کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا توعید کی چھٹیوں کے بعد دوبارہ این سی او سی سے رابطہ کیا جائے گا، کراچی میں ایونٹ کی واپسی کا آپشن ابھی موجود ہے مگر امکان زیادہ روشن نظر نہیں آتا۔ ادھر بعض فرنچائزز کو یو اے ای میں اضافی اخراجات کی فکر پہلے سے ہی ستا رہی ہے۔
چارٹرڈ فلائٹس کا بھاری کرایہ بھی ان کیلیے مسئلہ ہوگا، ابھی بورڈ نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی لیکن یہ طے ہے کہ سب کواضافی رقم خرچ کرنا پڑے گی،چونکہ ٹیم اونرز نے خود تجویز دی تھی اس لیے وہ خاموش ہیں، لیگ کے نہ ہونے کی صورت میں ٹائٹل اسپانسر شپ اور براڈکاسٹنگ کی رقوم سے ہاتھ دھونا پڑیں گے، صورتحال فی الحال بیحد پیچیدہ اورعید کے بعد ہی واضح ہونے کا امکان ہے۔
دریں اثنا اہم فیصلوں کیلیے پی سی بی میں لیڈر شپ کا فقدان نظر آتا ہے، گھر سے کام کرنے کی پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سی ای او وسیم خان لاہور والی رہائش گاہ پر قیام کے بجائے انگلینڈ سے فرائض انجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جونیئر لیول کے افسران کیلیے معاملات سنبھالنا خاصا مشکل ہو چکا ہے۔